فہرست
اسباب وعوامل:
میڈیکل سائنس سے اگر غائب دماغی، بے توجہی، اوربے دھیانی کے اسباب وعوامل دریافت کئے جائیں تو وہ درج ذیل امور کی ایک لسٹ مہیا کرتی ہے:
1- ذہنی واعصابی دباؤ:
اگر ہمیں ایک تواتر کے ساتھ مختلف انواع کی ڈپریشنز کا سامنا رہے تو اس سے بلڈ پریشر ہائی ہو سکتا ہے، جسم کا دفاعی نظام کمزور پڑ جاتا ہےاس کے علاوہ mental stress ہوتا ہے جو یکسوئی کا فقدان پیدا کر سکتا ہے۔
2- نیند کی کمی:
ڈاکٹرز کے مطابق روزانہ 9-8 گھنٹے کی نیند کرنا صحت کو برقرار رکھتا ہے۔اس سے کم نیند ذہن کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔
3- ہارمونز کی تبدیلی:
بعض مخصوص حالات میں جیسا کہ حمل (pragnancy) ہے ایسٹروجن اور پروجیسٹنون ہارمونز کے لیولز میں کمی بیشی ، اسی طرح انفیکشن اور شوگر لیول میں تفاوت اور انیمیا وغیرہ سے بھی یادداشت متاثر ہوتی ہے۔
4- سائڈ ایفیکٹس:
بعض دواؤں کا استعمال بھی ایسے سائڈایفیکٹس رکھتا ہے جس سے concentration میں فرق آتا ہے ۔ایسی حالت میں فوراڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔
تحلیل وتجزیہ
لیکن غور کیا جائے تو یہ تمام امور! اسباب سے کہیں زیادہ نتائج کہلائے جانے کے مستحق ہیں، جن کا ایک ہی سبب ہے اور وہ یکسوئی کا فقدان ہے۔
ہمارا موجودہ لائف سٹائل نہایت overloaded اور گوناگوں مصروفیات سے بھرپور ہے۔یہ ایک مشینی لائف اسٹائل بھی ہے ،جس میں ہر شخص ایک کل پرزہ کی طرح چاہتے نہ چاہتے ایک بے بسی کے عالم میں گرفتار، ہمہ وقت مشغولیت میں مبتلاء ہے۔ اور اگر کہا جائے کہ ہماری زندگی مجموعہ ہے تنوع(diversity)، انشغال (indulgence) اور عدم اشباع (restlessness)سے تو یہ کہنا بجا ہو گا۔
اس لائف اسٹائل کا لازمہ (unavoidable)ہے غائب دماغی،بے توجہی اوربے دھیانی جبکہ اس کے ساتھ بیزاری،بےسکونی اور عدم تشفی (dissatisfaction)ان کا نتیجہ ہیں۔
علاج
اگر غورکیا جائے تو ان سب امور کا سرمنشا (source)تنوع اور زندگی کی گوناگوئی (diversity)ہے۔اور اس کا علاج اس کی ضد یعنی یکسوئی(uniformity) میں پوشیدہ ہے۔ اگر انسان کا قبلہ متعین ہو جائے ۔اسےاپنی جدوجہد کا محور ومدار اور مرکز ثقل (Center of gravity)معلوم ہو جائے۔اور وہ یہ جان لے کہ منزل مقصودکیا ہے؟ اور اس تک پہنچنے کا راستہ اور اس کا زاد راہ کیا ہے، تو وہ بڑے بامعنی ، تسلی بخش اور صحت مند طریقہ سے زندگی بسر کر سکتا ہے۔
قرآن مجید بڑے واشگاف انداز (obvious manner)سے انسان کا نشان منزل ، راہ منزل اوراس کے زادراہ کا تعین درج ذیل تین نکات کی صورت میں کرتا ہے۔اور ان امور کو اپنی پہلی سورت سے آخر ی سورت تکthroughoutنہایت اہمیت، وقعت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔اوریہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اپنے اندر غور وفکر کرنے والے اور اس پر عمل کرنے والے شخص کی دنیا وآخرت میں سرخروئی اور سرفرازی کویقینی بتاتا ہے۔قرآن کے مطابق وہ تین امور درج ذیل ہیں:
1- توحید :
میں کیا اور کیسے ہوں؟ (مبدا ومنزل)
2- نبوت :
مجھے کیا کرنا ہے؟اور کیسے چلنا ہے؟ (نشان منزل)
3- آخرت:
(دنیا کی بے ثباتی، خوف احتساب)کے کیا جذبات اور احساسات رکھنے ہیں؟ (زاد راہ)
خلاصہ
تمام فلسفہ خدا،انسان اور کائنات کی برمودا ٹرائی اینگل کے متعلق سوالات کے جوابات تلاش کرنے سے عبارت ہے ۔لیکن اس کے باوجود اپنی بے بسی اور ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کائنات ایسی کتاب کی مانند ہے جس کا پہلا اور آخری ورق کہیں کھو گیا ہے۔on the contrary قرآن ایک مسلمان کو کبھی ایسی بیچارگی میں مبتلاء ہونے نہیں دیتا ، بلکہ اپنی تمام سورتوں اور ان کے گوناگوں موضوعات میں لائم لائٹ توحید ،نبوت اور آخرت کو قرار دیتا ہے۔اور انسان کو نشان منزل، راہ منزل اور زاد راہ کے اختیار کرنے پر فوکسڈ رکھتا ہے۔
مزید پڑھئے: اسلامی علم نفس کا طرہءامتیاز ۔ مراقبہ کی حقیقت۔ نشہ سے نجات کااسلامی طریقہءعلاج۔
Add Comment