فہرست
نفس کی حقیقت:
انسان روح ومادہ کا سنگم(composition) ہے۔ اس میں مادی عنصر کے تقاضے بھیمیت کہلاتے ہیں۔ (یعنی شہوات وملذات) اور روح کے تقاضے ملکیت کہلاتے ہیں (جیسے عبودیت، سماحت، طہارت،عدالت)۔
مادی جسم سے حیوانی تقاضے ابھرتے ہیں،اور ان کے پیچھے جبلتیں، جذبات اور میلانات محرک کے طور پر کارفرما ہوتے ہیں۔یہ مطالبات مختلف قسم کے ہیں جیسے بھوک کی طلب، جماع کی خواہش، جاہ ومال کی محبت، دوسروں پر فوقیت اور خودنمائی کی خواہش۔اور ان کے ساتھ جب شیطانی اکساہٹ اور ترغیبات بھی شامل ہو جائیں تو درج ذیل خصائل پیدا ہونے لگتے ہیں، جیسے ظلم وجور، جہالت وسفاہت، فسق وفجور، طمع وہوس، کینہ، بغض اور غرور، بخل اور کمینگی وغیرہ وغیرہ۔
روح سے جومطالبات پیدا ہوتے ہیں وہ فرشتوں جیسے خصائل پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔ان خصائل کے سبب بنیادی جبلی وجذباتی مفادات میں حکمت اورحسن تدبیر کے ساتھ ایک اعتدال اور ترتیب پیدا کرنے کی صلاحیت پروان چڑھتی ہےجس سے افراط وتفریط کا خاتمہ ہوتا ہےاورنتیجتا عمدہ اورپاکیزہ اخلاق پیدا ہوتے ہیں؛ جیسےحکمت وتدبیر، بلند نظری، عفت ومحبت، سخاوت، حیاء، صبر وقناعت، ضبط نفس اور بلند کرداری، شجاعت، استقامت، برداشت، کسر نفسی، فروتنی وغیرہ وغیرہ۔
نفس کی کیفیت
گویا کہ ایک انسان کی شخصیت میں بیک وقت دو قسم کے متضاد مطالبات کی کشمکش جاری رہتی ہے۔ اور یہ کشمکش بنیادی جبلتوں اور شیطانی ورحمانی قوتوں کے باہمی تعامل کا نتیجہ ہوتی ہے۔تاہم ان کے مابین جو نسبتیں ہوتی ہیں وہ تمام افراد انسانی میں اختلاف اور تفاوت کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔اسی سے ہر فرد ایک جدا اور ممتاز پرسنائلٹی کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔اور خاص خاص خوبیاں ہر فرد کی ذاتی پہچان ہوتی ہیں۔
اسی بات کو ایک حدیث نبوی میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ لوگ کانوں (mines) کی مانند ہوتے ہیں(جیسے سونے کی کان، تانبہ کی کان،کوئلہ کی کان)۔سو جو شخص اسلام سے پہلے اچھا تھا اسلام لانے کے بعد بھی اچھا ہو گا ، بشرطیکہ فہم وفراست سے کام لے۔اسی طرح ایک دوسری حدیث میں کہا گیا کہ اگر کوئی تم سے کہے کہ فلاں پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا تو اس کی بات میں درستگی کا امکان تسلیم کر لو، لیکن اگر کہا جائے کہ کوئی انسان اپنی جبلت اور سرشست سے بدل گیا تو کبھی مت مانو۔
اس بات کو مولانا رومی مثنوی میں یوں بیان فرماتے ہیں کہ اے انسان جیسے پانی میں تیرتا کچرا کچھ دیر میں تہہ تک پہنچ جاتا ہے اور پانی صاف دکھائی دینے لگتا ہے اور جب ذرا پانی کو ہلایا تو کچرا پھر اوپر کو اٹھ کر پانی کو گدلا کردیتا ہے یہی نفس کی مثال ہے تو سمجھتا ہے کہ گند ختم ہو گیا وہ تو تہہ میں بیٹھا ہے جب کسی نے پتھر مارا وہ پھر اوپر آسکتا ہے۔
امام ابن تیمیہ نے آفات نفس وغیرہ کی مثال کسی غلاظت کے کنویں سے دی کہ اس کو منہدم کرنے ، گرانے، اور مٹانے کے درپے ہو گے تو غلاظت اور زیادہ ظاہر ہو گی اور ایک بدبو سے بچ کر بیسیوں قسم کی دوسری بدبوں سے سابقہ پڑے گا۔اس لئے اس کو ڈھک دو تو محفوظ رہو گے۔
چنانچہ یہ معلوم ہوا کہ نفس جبلت میں تبدیلی ممکن نہیں ہے جیسے کوئی شخص آم کی گٹھلی کی حقیقت بدل کر سیب کی بنانا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔تاہم جب وہ جبلت یا قوت اپنے محرک اور تقاضہ کے ساتھ خارج میں وقوع پذیر ہوتی ہے تو اس میں صحت وفساد، ترقی وتنزل، تغیر وتبدل سب ممکن ہوتا ہے۔جیسے بیج یا گٹھلی کومناسب دیکھ بھال اور نشوونما سے درخت بھی بنایا جا سکتا ہےاور اس کی ناموافق پرورش سے گلا سڑا کر برباد بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس تمام تفصیل سے یہ تو واضح ہو گیا کہ اصل استعداد کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے ،البتہ اسے بہتر یا بدتر بنایا جا سکتا ہے۔چنانچہ نفس کی اصلاح میں یہ طریقہ اپنانا کہ طبعی خواہشات کاگلا گھونٹ دیا جائے تو یہ غیر فطری طریقہ علاج ہے۔اور اسی طرح طبعی خواہشات کوبلاروک ٹوک پورا کرتے جانا بھی اس کی اصلاح کا ضامن ہرگز نہیں ہو سکتا۔
فطری طریقہءعلاج
فطری طریقہء اصلاح یہ ہے کہ ان جبلی ملکات کو صحیح رخ پہ ڈال دیا جائے۔ انہیں کسی بلند تر اور اعلی وپاکیزہ مقصد کے حصول کا ذریعہ بنایا جائے تو اس سے مفید ،مثبت اور تعمیری نتائج پیدا ہوں گے۔ جیسےغصہ،بغض وعداوت،حسد، الغرض وہ سب کچھ جن سے دوسروں کو دکھ پہنچتا ہے ،، کفر کی طرف ان کا رخ پھیر کر شدت کی ان ہی صفات کو اسلام نے کتنا کارآمد اور قیمتی بنا دیا۔ دینے والے نے بیشک آپ کو تیشہ دیا تھا اور اس لئے دیا تھا کہ اپنی ضرورت کے لئے اس سے لکڑی پھاڑنا لیکن بجائے لکڑی کے اگرمسجد کی دیوار کو اس تیشہ سے آپ کھودنے لگیں توا س الزام کا ملزم کیا تیشہ دینے والے کو ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
مولانا مناظر احسن گیلانی کے مطابق سچ تو یہ ہے کہ کسی طوفانی سیلاب کے مقابلہ میں اس قسم کی تدبیریں کہ آبادی کو چاروں طرف سے سنگ بست کر دیا جائے یا یہ نہیں بلکہ تلاش کر کر کے ان سرچشموں ہی میں ڈاٹیں لگانے کی کوشش کی جائے جن سے ابل ابل کر پانی آ رہا ہے۔کہنے کی حد تک تو یہ بھی پرمصارف تدبیریں ہیں۔ لیکن ان دونوں گروہوں سے ہٹ کر جو آگے کسی بلندی پر چڑ ھ کر کسی بنجر میدان کی جانب جو اسے نظر آیا ،پھاوڑا لے کر ہلکی سی ایک راہ پانی کے لئے اس کی طرف اس نے پھیر دی جس کے بعد راستہ پا کر خودبخود سیلاب کا یہ پانی غراٹے بھرتا ہوا اسی میدان کی طرف پل پڑا،خود ہی انصاف کیجئے، کس کی کامیابی کا یقین کیا جا سکتا ہے ۔امالہ کا قانون اسی کا نام ہے۔
حافظ ابن القیم کے مطابق؛ یوں سمجھئے قوت غضبیہ وشہوانیہ(جلب منفعت اور دفع مضرت کی قوتیں) تو گویا نہر ہیں۔ اور انسانی طبیعت وہ جدول ہے جس میں یہ نہر بہتی ہے۔ اورانسانی دل ودماغ وہ بستیاں اور عمارات ہیں جو اس نہر سے تلف اور برباد ہوتے جارہے ہیں۔اب وہ جانتے تھے کہ خلقی صفات کی یہ نہر ضرور بہہ کر رہے گی اور کسی طرح بند نہ ہو سکے گی (اس کی بجائے) اپنے قلب کی بستیوں کے استحکام اور قوی باطنہ کے قلعوں کی مضبوطی میں سر گرم رہے, تا کہ قلعہ کی محکم دیواروں اور آبادیوں کی مضبوط شہر پناہوں سے نہر کا پانی اس سے ٹکرا کر ادھر ادھر نکل جائے اور کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا سکے ۔نیز اخلاق حسنہ کے ذریعہ ان دونوں قوتوں میں اعتدال پیدا کرنے میں مشغول رہے اور اس طرح ان فطری اوصاف کو مناسب کام میں لگا کراخلاق کی کھیتیوں کو سرسبز وشاداب بنایا۔
خلاصہ
آفات نفس کی مثال بعض مشائخ نے ان سانپوں اور بچھوؤں سے دی جو کسی مسافر کی راہ میں پڑے ہوں ۔اگر وہ ان کے بلوں اور سوراخوں کی تفتیش میں لگ جائے کہ ان کا قلع قمع کر ڈالے توکبھی اپنے مطلوب سفر کو پورا نا کر پائے گا۔اس کی بجائے اسے چاہئے منزل مقصود پر گامزن رہے اور ان کی جانب مطلق التفات نہ کرے اور اگر ان میں سے کوئی راہ کے عین سامنے ہی آجائے تو اس کو مار ڈالے او رپھر اپنی راہ پر لگ جائے ۔
مزید پڑھئے: شخصیت کی تشکیل کیا، کیوں اورکیسے؟ قربانی کا فلسفہ اور نفس کشی۔
Add Comment