فہرست
انفرادیت یا اجتماعیت؟:
انسان مانوسیت سے ہے۔اس لئے اسے طبعی طور پر اجنبیت، تنہائی اور انفرادیت سے وحشت اور تنفر محسوس ہوتا ہے۔اور مل جل کر خاندان، قبیلہ،برادری، سوسائٹی کی شکل میں رہنا زیادہ مالوف اور قابل قبول لگتا ہے۔
خالق کائنات نے انسانی معاشرے کا قیام اور استحکام بقائے باہمی کے أصول پر رکھا ہے۔اور قدرتی طورپر ایسا نظام تشکیل دیا ہے جس میں تمام افراد کے مفادات ومصالح کو باہم پیوستہ کر دیا ہے۔یوں ہر فرد کو دوسرے کی ضرورت اوراحتیاج رہتی ہے۔
فرد اور معاشرہ کا تعلق
فرد اور معاشرہ کاتعلق باہم فعل وانفعال(impact and accept)کا ہوتا ہے۔اس لئے بقائے باہمی کا یہ مسلمہ أصول اپنے کچھ قواعد اور اساسات رکھتا ہےجن کے نتیجہ میں نا فرد کے مفاد سے معاشرے کو زک پہنچتی ہے اور نا ہی معاشرے کی مصلحت کلی سے شخص کی منفعت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
یک طرفہ موقف
انسان نے جب بھی ان قواعد اور اساسات کی تعیین میں اپنی فہم اور صوابدید پر تکیہ کیا تواس سے کافی غلطی اور تقصیر ہوئی۔جان اسٹورٹ مل نے معاشرتی مفاد کو شخصی مفاد کے تابع بنایا اور انفرادیت پسندی کا یہ نظریہ دیا کہ معاشرہ خدا کی تخلیق نہیں، بلکہ انسان نے اپنے فائدہ کے لیئے بنایا ہے اس لیئے معاشرہ بس افراد کا مجموعہ ہے۔اس کے برعکس ہیگل نے مثالیت کا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ فرد معاشرہ کے لئے ہے۔اس سے ہٹلر اور مسولینی کی آمریت نے جنم لیا۔
اسی طرح کرداری نفسیات(clinical psychology) کے ماہر کانکتہ ءنظر کسی شخص کی موروثی اور جینیاتی خصوصیات کی مکینیکل تشریح پر مبنی ہوگا وہ اس کی تشکیل سیرت میں معاشرتی کردار کو زیادہ اہمیت نہ دے گا۔جب کہ اس کے برعکس ایک عمرانی ماہر سماجی عوامل کی تاثیر کی وکالت بڑے پرزور انداز سے کرتا ہے، کہ کس طرح اجتماعی حالات فرد کی زندگی پر ریفلیکٹ ہوتے ہیں۔اور اگر کسی معاشی ماہر سے یاایک سیاسی قائد سےان حرکیات کے تعین کرنے کا کہا جائے تو وہ فرد ومعاشرہ ہر دو کو اپنی سیاست یا معیشت کی عینک سے دیکھے گا اور ایک مختلف نظریہ پیش کرے گا۔اس لئے کسی ایک نکتہء نظر پر اکتفاء کرلینے سے یا یک طرفہ موقف اپنا لینے سےہم فرد کی شخصیت کی تشخیص اور اصلاح میں ٹھوکر کھائیں گے۔اور ہر تدبیر اپنے ساتھ منفی نتائج اور مزید مسائل کا بوجھ پیدا کرے گی۔
متوازن موقف
درحقیقت انسانی زندگی کے دو پیچیدہ ترین مسائل ہیں اور ان کے متوازن اور صحیح حل پر ہی انسان کی فلاح وبہبود منحصر ہے۔ایک یہ کہ اجتماعی زندگی میں مرد اور عورت کا تعلق کس طرح قائم ہوجو تمدن کا اصل سنگ بنیاد ہے۔اور دوسرا یہ کہ فرد اور جماعت کاتعلق کیسے ہو؟ اس کا تناسب قائم کرنے میں ذراسی غلطی اور بے اعتدالی تلخ نتائج پیدا کرتی ہے۔
انسان اور سماج لازم وملزوم
معروف مفکر ومفسر محمد حنیف ندوی کے مطابق؛ انسان اور سماج ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں، ان کی بھلائی اور برائی یکساں ہے۔یہ ایک دوسرے سے غذا ،توانائی اور زندگی حاصل کرتے ہیں۔ایک طرف ہم فرد کو دیکھتے ہیں کہ وہ معاشرے کو نت نئے افکار وتصورات سے مالا مال کرتا ہے ، اپنی فکری واجتہادی تگ وتاز سے تہذیب وتمدن کے گوشوں کو چمکاتا سنوارتا ہے، اور اپنی سیرت وکردار کی ہمواری واستواری سے معاشرہ میں نظم وتوازن پیداکرتا ہے۔ وہاں دوسری جانب معاشرہ اس فرد کو زندگی کی لگی بندھی روایات ،اقدار وعقائد، اور اقتداربخشتاہے اور تہذیب وثقافت کے طے کئے ہوئے سانچے مہیا کرتا ہے ، بلکہ یہی نہیں وہ اسےاظہار ذات ،ارتقائے ذات اور تکمیل ذات کے وہ تمام مواقع عطا کرتا ہے جن سے آگے کی راہیں اور منزلیں طے ہوتی ہیں،، اور اس کے برعکس برامعاشرہ افراد کے ذاتی حوصلوں،آرزوؤں اور امنگوں کو بری طرح متاثر کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
فرد پر سماج کا حق
مولانا سید ابو الاعلی مودودی کے مطابق؛ انسانی سوسائٹی دراصل تعلقات اور روابط کے ایک جال کا نام ہے جس میں ہر فرد کی زندگی بےشمار دوسرے افراد کے ساتھ منسلک ہے ،ان پر اثر ڈالتی ہے اور ان سے اثر قبول کرتی ہے۔کسی ایسے شخصی فعل کا تصور نہیں کیاجاسکتا جس کا اثر پوری جماعت پر نہ پڑتا ہو۔ ظاہری افعال تو درکنار دل میں چھپا کوئی خیال بھی ایسا نہیں جو ہمارے وجود سے منعکس ہو کر دوسروں پر اثر انداز نہ ڈالتا ہو ،،، اگر مجھے یہ آزادی نہیں ہاتھ میں لکڑی لے کر جہاں چاہوں گھماؤں، اپنے پاؤں پہ چل کر جہاں چاہوں گھس جاؤں، اپنی گاڑی کو جس طرح چاہوں چلاؤں، اپنے گھر میں جتنی چاہے گندگی جمع کر لوں بلکہ ایسے تمام معاملات اجتماعی ضوابط کے پابند ہونا ضروری ہے توایسے ہی ان ضوابط سے روگردانی کرنے والاایک انسان اپنے ذاتی اختیارات واقدامات سے خود غرضی کی بنا پر اجتماعی ادارت پر ضرب لگا تا ہے جن سے اس نے جماعت کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے فائدہ تو اٹھایا مگر ان کے قیام وبقا میں اپنا حصہ ادا کرنے سے انکار کر دیاہو۔
راہب اور صدقہ نا دینے والےیکساں ہیں
قرآن مجید میں ایک مقام پر رہبانیت پسند(تارک دنیا ) لوگوں کے تذکرہ کے ساتھ ان لوگوں کے تذکرہ کو ملا کر بیان کیا جو سونے چاندی کو ذخیرہ کر کر کے جمع رکھتے ہیں لیکن اس میں سےصدقات خیرات نہیں دیتے۔اب یہاں دونوں کے یکجا ذکر کی بظاہر کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی۔لیکن مفسرین نے اس موقعہ پریہ نکتہ آفرینی کی ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں طبقات ایسے ہیں جو اپنی انفرادی قوت سے جماعتی جسد کی کوئی خدمت سرانجام نہیں دیتے۔اوریہ بات دونوں میں مشترک ہے اسی وجہ سے ان دونوں کا ذکر ایک سیاق میں کیا گیا ہے ۔
انفرادی نجات؛ اجتماعی نجات سے منسلک ہے
چنانچہ جولوگ انفرادی نجات کو مذہبی زندگی کا انتہائی مقصودخیال کرتے ہیں وہ ایک بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں! کیونکہ انفرادی فلاح وسعادت کواجتماعی فلاح وسعادت سے الگ نہیں کیاجاسکتا! انفرادی زندگیمیں کوئی شخص اس وقت تک اعلی سیرت وکردار کا حامل نہیں ہوسکتا جب تک مجموعی ماحول اس کےلیےمعاون نہ ہو۔ عام افراد کی ذہنی تشکیل اورنفسیات مروج معاشرتی معیارات اوراخلاقی اقدار سے تخلیق پاتی ہے! جومعاشرہ اخلاقی طورپرزوال پذیرہو وہاں کوئی انسان محض اپنےانفرادی اعمال کی بناپر مشکل ہی سے نجات کاحق پیداکرسکتاہے! ایسےمعاشرے میں فرد کی نجات کادارومدار اس ہے کہ وہ اپنےگردوپیش کی اصلاح کرنے اور اپنے ماحول کےاخلاقی معیارات وتصورات کو درست کرنے کے لیے کیارول اداء کر رہا ہے۔
انفرادیت؛اجتماعیت میں گم مت کیجئے
لیکن اس کے ساتھ یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ انفرادیت کو اجتماعیت میں گم نا کرناچاہئے۔ ہر شخص سے دوسروں کی بقدراستطاعت اصلاح دین کے مطالبات شامل ہے۔لیکن مقصود یہ ہے کہ اس میں مبالغہ آمیزی سے بچتے ہوئے اعتدال پیدا کیا جائے۔ یہی وجہ ہےکہ عارفین سالکین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کردینے کے بعد زیادہ درپے نہیں ہوتے ۔
نتیجہءفکر
خلاصہ یہ کہ بہترین معاشرے کے قیام کیلئے جس معاہدہ ءعمرانی کو بنیاد قرار دیا جاتا ہے اس کی تشکیل کن امور ونکات کی حفاظت ورعایت سے طے پانی چاہئے تو اس میں ایک رائے یہ بیان کی گئی ہے کہ فقہاء جنہیں اپنی اصطلاح میں فرض کفایہ کہتے ہیں، یہی امور اسلامی نظام اجتماعیت کے لازمی مقاصد کو متعین کرتے ہیں، نیز کامیاب او ر ناکام پالیسی کو جانچنے کے انڈیکیٹرز انہی سے اخذ ہونے چاہئیں۔ ایک دوسری مقبول رائے یہ ہے کہ جنہیں اہل فقہ کے ہاں شریعت کے مقاصد خمسہ کہا جاتا ہے، یعنی دین ،نفس ونسل، عقل ومال وہی اسلامی معاشرہ کےمعاہدہ عمرانی کی اساسات ہیں۔
رہا یہ سوال کہ ان اھداف ومقاصد کے حصول کا طریقہ ءکار کیا ہونا چاہئے؟ تو بقول مولانا محمد حنیف ندوی: اسلام نے ارکان خمسہ کی ترتیب میں ایسی جامعیت رکھی ہے کہ ان میں وہ تمام فکری وعملی تقاضے سمٹ آئے ہیں جن کی انسان کو ہر ہر دور میں ضرورت ہے ۔ یہ پانچ ارکان دراصل ارتقائے حیات وتکمیل فکر کی وہ پانچ بنیادیں ہیں جن پر معاشرہ آگر چل کر تہذیب وتمدن کے پر شکوہ غرفے تعمیر کر سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کی حیثیت ایسی جامع اقدار کی ہے جن میں وہ تمام نصب العین اور منزلیں پوشیدہ ہیں جن کی طرف انسانیت کو بڑھنا اور ہر ہر زمانہ میں حرکت کنان رہنا ہے اور یہ کام علماء اور صاحب بصیر ت حضرات کا ہے۔
مزید پڑھئے: نفسیات پر معیشت کے اثرات
مولانا ندوی کی رائے وقیع ہے
[…] خودغرضی ایک نفسیاتی تجزیہ۔ معیشت پر نفسیات کے اثرات۔ انفرادی نفسیات پر اجتماعی نفسیات کااثر۔ نفس پر شیطانی اثرات۔ منفی معاشرتی […]