Home » بری عادتوں کاعلاج
علاج وتدابیر معرفی طریقہءعلاج

بری عادتوں کاعلاج

 

تعارف:

ہر وہ عادت یا خصلت بری ہے جس کی بنیاد صحیح نیت اور اعلی مقصد  پر نا ہو۔جس سے نا اپنی ہی ذات کا کوئی فائدہ ہے نا وہ دوسروں کے لئے نفع رساں ہے۔بلکہ اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے سب کے لئے تباہ کن ہے۔مفید عادت کو منفی عادت سے پہچاننے کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ وہ انسان کی فطرت سلیمہ سے میل نہیں کھاتی۔وہ اپنے اندر انسان کے عقلی،جمالیاتی اوراخلاقی شعور کی تسکین وتشفی کا ساماں نہیں رکھتی۔یہ ایک طرح کی کجی ہے اور خامی ہےجو اپنے ساتھ بےشمار خامیوں اور نقصانات کی موجب ہے۔

اہمیت

بری عادت کا معاملہ یہ ہے کہ اگر اس کے فی الفور ازالہ کا اہتمام نا کیا جائے تو یہ اپنے ساتھ بری عادتوں کی ایک لمبی فہرست تیار کرتی چلی جاتی ہے۔جیسے کسی مکان کی بنیاد اگر ٹیرھی  اورکجی والی ہو تو اس پر بننے والی دیواریں اور چھت سب مائل بہ زوال ہوں گے۔

بری عادتوں کی حقیقت

بری عادت کے واقع ہونے سے پہلے اور بعد ایک پراسس اور سلسلہ عمل پایا جاتا ہے۔جیسے دل ودماغ پر احساسات وخیالات کا ایک ہجوم رہتا ہے۔جس میں اس کی طبعی خواہشات، تقاضے اہم کلیدی رول اداء کرتے ہیں۔جس سے اس کے ارادے بنتے اور ختم ہوتے رہتے ہیں۔بعض اوقات اس کے طبعی بھیمی تقاضے شدت اور زور اختیار کر جاتے ہیں اور خارج سے ان تقاضوں کوشیطانی وساوس  اور خطرات کی شکل میں تقویت بھی میسر آجاتی ہے تو اس کے ارادے عزم اور نیت کا روپ دھار لیتے ہیں جس کے نتیجہ میں افعال وجود میں آتے ہیں۔ان افعال کے پس پردہ طبعی قوتیں متنوع  ہوتی ہیں جیسے بھوک، خواہش نفس، غصہ،بخل، کمینگی وغیرہ وغیرہ جو باہمی تعامل سے مختلف قسم کے افعال کو جنم دیتی ہیں۔اورجب یہ افعال ایک تواتر اور تسلسل کے ساتھ وجود میں آتے رہتے ہیں تو ان سے عاداتبنتی ہیں جو شخصیت کی تشکیل کرتی ہیں۔یہ عادتیں آہستہ آہستہ راسخ ہونے لگتی ہیں، اورباہمی امتزاج سے نئی اور متفنن دیگر عادات کو بھی تخلیق کرتی ہیں۔اس طرح قوے، افعال اور عادات میں ازدواج اورجوڑے بندیاں بنتی ہیں اور نت نئی منفی عادات وجود میں آتی رہتی ہیں، الا یہ کہ ان کے اس تسلسل میں رکاوٹ اور مزاحمت پیدا کی جائے۔

تدبیر وعلاج

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق تصوف کاخلاصہ بس یہی ہے کہ جس وقت کسی اطاعت کی بجاآوری میں سستی ہو رہی ہو، تو ہمت سے  اس کا مقابلہ کرکے اس اطاعت کو بجا لایا جائے۔ اور جس وقت کسی گناہ کا تقاضاپیدا ہو، تو اس تقاضہ کی مزاحمت کرکے اس گناہ سے بچاجائے۔، جب یہ بات پیدا ہوجائے تو پھر کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ۔ اسی سے اللہ سے تعلق بنتا ہے، اسی سے مضبوط ہوتا ہے، اور اسی سے ترقی کرتا ہے۔

چنانچہ نیکی اور اچھائی صرف یہ نہیں کہ آپ کوئی بھلا کام کریں یا کوئی نیک خو وخصلت اپنائیں ۔اس کا عدمی تقاضہ یہ ہے کہ ہم  اچھی عادت اپنانے کے ساتھ بری عادتوں سے بھی اجتناب کریں۔اور اس کا طریقہ ہمت اور عزم ہی ہے۔

روٹ کاز

جب ہم چیک اپ کے لیئے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو وہ بیماری کی روٹ کاز کا تعین کر کے اس کے خاتمہ کی کوشش کرتا ہے کیونکہ جب تک بیماری کی روٹ کاز باقی ہے تب تک بیماری رہتی ہے۔ گناہ ومعصیت کی سفلی دنیا کا معاملہ بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے یہ بھی ایک چین سیکوئنس ہوتا ہے جس میں ہر گناہ کی ایک روٹ کاز ہوتی ہے جو ماضی میں کردہ ایک گناہ ہوتا ہے، گناہوں سے پاک تقوی والی ٹرانسپیرنٹ لائف گزارنے کے لیئے ضروری ہے کے اس روٹ کاز کو کل کیا جائے اور اسکا ایک ہی حل ہے توبہ واستغفار کو اپنا شیوہ بنانا۔ گناہوں بھری اس ہسٹری کو اپنی لائف سے ریسایئکل کرنا کتنا ضروری ہے اس کا پتہ تب چلتا ہے جب کبھی یہی گناہ ایک بھیانک بربادی کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں، غزوہء احد کی جزوی شکست، جانی وقومی خسارہ کی شکل میں ہمارے لیئے ایک درس عبرت ہے۔ ان الذين تولوا يوم التقى الجمعن انما استزلهم الشيطن ببعض ما كسبوا .. الاية مطلب غزوہ احد میں مسلمانوں کو جو سبکی اٹھانی پڑی وہ چند سابقہ  گناہوں کی پاداش میں تھا۔

نیکی کے دو پہلو؛ برّاور تقوی

اسلام میں نیکی اور اچھائی کا تصور دو پہلو رکھتا ہے۔ایک ایجابی پہلو ہے جسے وجودی پہلو بھی کہہ سکتے ہیں اوراسے برّ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اور دوسرا سلبی پہلو ہے جسے عدمی بھی کہہ سکتے ہیں، اور اسے اصطلاح میں تقوی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیسے وعدہ خلافی کا ترک کرناتقوی ہے، اور اس ترک کا نتیجہ یعنی ایفائے عہد بر ہے۔ تقوی کی ضد اثم ہےاور بر کی ضد عدوان ہے۔ برّکا مفہوم زیادہ عام ہےاس کا مطلب لیا جاتا ہے کہ وسیع پیمانہ پر نیکی کرنا، گویا کہ نیکی کو نہیں بلکہ ہر دم نیکی پر مائل رہنے والی خصلت کو برّکہتے ہیں۔اسی لئےقرآن حکیم میں تلقین ہے: تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان۔یعنی نیکی اور تقوی میں ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک اور تعاون سے پیش آؤ اور گناہ اور زیادتی کے معاملہ میں دور رہو۔

 نفرت گناہ سےیا گناہگار سےیا دونوں سے؟

ہمارے ہاں ایک کنسیپٹ یہ بھی پایا جاتا ہےکہ’نفرت گناہگار سے نہیں، گناہ سے ہونی چاہئے’اس جملہ سے یہ تاثر ملتا ہےکہ گمراہ یا گناہگار شخص خود بذاتہ ملامت کا مستحق نہیں ۔چنانچہ صوفیاء کے ایسے مشہور عام جملوں سے لوگ یہ سوچ قائم کر لیتے ہیں کہ گناہگار کو مارجن دینا چاہئےاورحسن ظن سے کام لینا چاہئے کہ مبادا وہ اپنی گمراہی وگناہی میں حسنِ نیت رکھتا ہو، جیسا کہ ملحد اسٹیفن ہاکنگ کی موت کے بعدبہت سے لبرل لوگ خوش گمانی سے کام لے رہے تھے۔جب مذہبِ انسانیت کے پرچارک اس طرح کے جملوں سے مارجن دینے کی بات کرتے ہیں تو پھر ہرگناہگار سے گناہگاردرندہ بھی قابل رحم ہونا چاہیے۔اس لئے اصل میں یہ عبارت یوں ہونی چاہیئے کہ؛ نفرت گناہگار سےگناہ کی وجہ سے ہونی چاہئے۔  اس میں دراصل داعی مصلح کی تربیت مقصود ہے کہ گناہ سے نفرت میں کہیں وہ اپنے فریضہءِاصلاح سے فروگذاشت نا کر نے لگے۔

غلطی کی سطح کے بقدر عذر کامارجن

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب کے مطابق غلطی کی سطح جس قدر بڑھتی جاتی ہے اتنا ہی عذر کا مارجن کم تر ہوتا چلا جاتا ہے، اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ اس کا انجام کیسا ہے؟ اوراللہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا ؟لیکن دنیا میں ہم اسی کے مکلف ہیں کہ گناہ کی شدت کے اعتبار سے شدید حکم لگائیں۔ حدیث میں ہے من احب للہ واغضب للہ فقد استکمل الایمان۔ یعنی جس نے اللہ کی خاطر دوستی اور دشمنی برتی اس نے خود کو کامل ایمان کا مستحق بنا لیا۔

 البتہ گناہ اور گناہ میں فرق کرنے کی بجائے گناہ کےمرتکب کے علم وجھل، اصرار وتکرار کو دیکھنا چاہئےکیونکہ گناہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، خدا تعالی کی معصیت ہونے کی حیثیت سے دونوں برابر ہیں۔ اور صاحب گناہ مستحق ملامت ہے تو گناہ کے ابتلاء کی وجہ سےہے۔

اور پھر ویسے بھی حکم شریعت میں ظاہر حال کے مطابق عمل ہوتا ہے، باطن کے مطابق نہیں۔ حضرت عمر رض کا قول ہے: نحکم بالظواہر واللہ یتولی السرائریعنی ہم ظاہری حال کے مطابق فیصلہ کریں گے اور دل ونیت کے معاملات اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔

خلاصہ

گناہ کے درجات بیشک متفاوت ہوتے ہیں،اوراسی کے موافق تعامل ہوتا ہے، لیکن اہلِ حقیقت گناہ کو ظلمت اور نحوست کے طور پہ لیتے ہیں جس میں ہر چھوٹا گناہ بڑےگناہ کی طرف لے جاتا ہے۔اور جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ایک گناہ سے دل پر ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے اور اگر نیکی کا میلان پیدا کر لیا جائے (توبہ واستغفارکر لیا جائے)تو وہ مٹ جاتا ہے لیکن اگر گناہ میں اصرار اور تکرار کی عادت اپنا لی جائے تو وہ سیاہ نکتہ ایک حلقہ کی صورت اختیار کرتے کرتے ایک ناسور کی مانند پھیلتا جاتا ہےاور ایک وقت آتا ہے کہ پورے دل کو سیاہ وتاریک بنا ڈالتا ہے۔پھر نیکی کی جانب پلٹنا مشکل تر ہو جاتا ہے، اور بسا اوقات تو نیکی کی توفیق ہی سلب کر لی جاتی ہے۔اس لئے ہمیں چاہئے کہ بری عادتوں اور خصلتوں سے جلد ازجلد چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں بصورت دیگر ہم لاعلاج نفسیاتی امراض کا مجموعہ بن سکتے ہیں۔

مزید پڑھئے:  شخصیت کی تشکیل؛کیا، کیوں اور کیسے؟

Add Comment

Click here to post a comment