Home » جمالیات اور نفسیاتی مسائلJMALIYAT OR NASEYATI MSAYEL
اسلامی علم نفسیات

جمالیات اور نفسیاتی مسائل
JMALIYAT OR NASEYATI MSAYEL

جمالیات کا مفہموم:

جمالیات سے مراد فن پاروں اور فطرت کے نظاروں میں جو حسن وجمال پایا جاتا ہےاس کا إحساس وادراک، اور اس کے مناسب وموافق اظہاروبیان ہے۔

تمام کائنات اور حیات کے مختلف مظاہر میں ایک خوبصورتی، ہم آہنگی، موزونیت اور تناسب رچا بسا ہے۔ اس کے مناظر میں آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی چمک دمک،رونق اور رنگ ونکہت ہے ، دل موہ لینے والی نزاکت ولطافت ہے، جذبات میں ارتعاش برپا کردینے والی موسیقی، نغمگی اور جلترنگ ہے،  شاعرانہ سحرکاری کے نمونےہیں،اور ہوش ربا صناعت، مہارت اور دقت وحذاقت کے کارنامے ہیں۔

مظاہر فطرت اورتمام علوم وفنون کے رگ وپے میں پیوست یہ حسن اور کمال اپنے دیکھنے والوں اور مشاہدہ کے اس تجربہ سے گزرنے والوں کے جذبات اور احساسات کو ابھارتا ہے کہ وہ بے اختیار اس کی ستائش وتقدیر اور تعریف وتوصیف میں لگ جائیں۔

اور ایسا بھی نہیں کہ دیکھنے والوں کو صرف ظاہری حسن اور آب وتاب نےمسحور کر دیا ہو، بلکہ وہ اپنی ذات ،فطرت اور نفسیات میں اس رونق وجمال کی جڑوں کو پیوست پاتے ہیں۔اورجب اپنے مشاہدہ ،تجربہ اور تجزیے کے دوران اس باطنی حسن وکمال سے اس کی مناسبت اور اشتراک پاتے ہیں تومچل اٹھتے ہیں۔اور اس کے اظہار وبیان کی مختلف صورتیں اور طریقے اختیار کرتے ہیں۔

جمالیات میں تنوع اور رنگارنگی

جیسا کہ ہم نے ابھی جانا کہ؛ جمالیاتمیں  خوبصورتی اور رعنائی کی خارجی شکلوں کو داخلی صورتوں سے ربط اور مناسبت  دینا ہوتا ہے۔لیکن جمالیات کی یہ باطنی جڑیں  اوربنیادیں تزکیہ وتصفیہ اور تصقیل وتطہیر کی محتاج ہوتی ہیں۔اور پھر اپنی صفائی اور رسائی کے مناسب حال یہ جمالیات کے ادراک اور بیان میں جولانیاں دکھاتی ہیں۔

باطنی دنیا کا سحر وکمال ایک ابہام لئے ہوتا ہے،اس میں اجمال کا سایہ ہوتا ہے۔وہ ایک بالقوہ استعداد اور صلاحیت ہوتی ہےجسے نشاط اور فعالیت میں لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔اور یہ ضرورت فن کے شہ پاروں اور فطرت کے نظاروں کے مشاہدہ اور تجربہ سے پوری ہوتی ہے۔جو اس مدفون جمال کو تفصیل، تنقیح اورنکھاردیتاہے، اس کے ابہام کو زبان وبیان دیتا ہے۔

کسی ماہر فن ادیب ونقاد کے إحساس جمال میں جس قدر صفائی اور تیزی پیدا ہوجاتی ہےوہ اسی قدر جمالیات کے اسرار کو منکشف کرتا ہے۔ اورجس قدر اس کی ذاتی صلاحیت میں کمی رہ جاتی ہے وہ اسی قدر جمال کے ادراک وتخیل میں تقصیر کرتا ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل فطری حسن میں کوئی کمی نہیں ، کوئی خرابی نہیں ۔مبداء فیاض نے اسے خیروخوبی سے وافر حصہ عطاء کیا ہے۔اس میں کوئی بدنمائی اور کمی ہے تو اس کے سمجھنے میں، اس سے تعلق ،رشتہ اور مناسبت پہچاننے میں ہے۔وہی آگ کا ناری جمال ہے جس سے کھانا کھایا جاتا ہے اور وہی اس کاجلال ہے  جس سے کسی کاگھر جل کر خاکستر ہوجاتا ہے۔ایسے ہی کسی عالیشان گھر میں ایک ستون کو اگر اس کی ذات کی حد تک دیکھاجائے تو وہ ایک رکاوٹ محسوس ہوتا ہے۔لیکن جب مجموعی ماحول کے تناظر سے دیکھا جائےگا تو وہی رکاوٹ مکان کی ضرورت معلوم ہوگی۔

إحساس جمالیات اوراس کی رسائی وصفائی کا یہ تفاوت ہی جمالیات  کی بوقلمونیوں اور نت نئی شکلوں کو جنم دیتا ہے۔کسی باغ ومرغزار میں بکھرے حسین وجمیل پھولوں اور پودوں کا مشاہدہ کرنے والوں کو اپنی اپنی استعداد اور تخیل کی پرواز کے مطابق کسی کوپھولوں کا رنگ دنگ کرتا ہے، توکسی کو پنکھڑیوں کی نزاکت اور لطافت فریفتہ کرتی ہے، اور کسی کو اس کی مہک وخوشبو مسحور بناتی ہے۔

الغرض جمالیات کا مادہ ایک ہے۔اس کی اعلی وادنی شکلیں اس کے مختلف زاویے اور پہلو ہیں جو اس کی پرتوں میں ملفوف ہوکر مشاہدہ کاروں کو دکھائی پڑتے ہیں۔

علاوہ ازیں جمالیات کے تنوع اور ورائٹی میں مختلف عوامل کے اثرات کا انکار بھی نہیں کیا جاسکتا جو اسے نت نئے فلیوَر عطاء کرتے ہیں۔ان میں سرفہرست مذہب اور عقیدہ ہےاور ثانوی طور پر موروثی اور علاقائی رجحانات ومیلانات ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر کسی تہذیب وکلچر میں سفید رنگ برتر سمجھا جاتا ہے تو کہیں سرخ وسیاہ۔کسی علاقہ،تمدن وثقافت میں موٹی ناک، لٹکے ہونٹ اور سیاہ رنگ  زیادہ دل کو موہ لیتا ہے۔

جمالیات کا مغربی تصور

جمالیات کے بارے میں جو تصور ہیگل اور بام گارٹن کی تحریرات میں ملتا ہےوہ خالص خارجیت پسندی کی عکاسی کرتا ہے۔وہ جمالیات کے تخیل وإحساس کو خالصتا معروضی مانتے ہیں۔صرف اتناہی نہیں بلکہ ان کے نزدیک جمالیات کاموضوع اور معروض علوم وفنون کے وہ شہ پارے ہیں جو انسانوں کی تخلیق اور ایجاد وابداع ہیں۔

اس کے ساتھ وہ جمالیات کا ایسا محدود اور ناقص تصور پیش کرتے ہیں جس کے بعد وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے قدرتی وفطری حسن وجمال کے نمونے ان کی نگاہ التفات اور دلچسپی کا مرکز ومحور نہیں بنتے۔اور نا ہی وہ جمالیات کے پیمانوں اور نقد وقدح کے قاعدوں کوہی جسٹیفائی کر پاتے ہیں ۔

وہ یہ نہیں بتا پاتے کہ ذوق کی آخر وہ کیا بنیادیں ہیں جو کسی فن پارہ یا مہارت وصناعت کے بارے میں یہ فیصلہ اور ججمنٹ فراہم کریں کہ آیا وہ اعلی فنی قدروں پر پورا اترتی ہیں،یا نہیں۔جمال کی طرح اگر اس کا احساس وامتیاز اگر سراسر معروضی اور خارجی نوعیت کا ہےاور اس میں موضوعیت اور داخلیت پسندی کے رجحانات ومیلانات کا کوئی عمل دخل نہیں تو کس بنیاد پر ہم ایک اجنبی ،بےجوڑ اور انمل چیز کو خودسے منسلک پائیں، اس کی تاثیر کے جذبات اور ارتعاشات اپنے باطن میں پھوٹتے ہوئے پائیں۔بلکہ یہاں تو مجاز وتشبیہ کی کارفرمائی ہے اور اس  تناسب وتلازم کا بھی کردار ہے جو دو حسین چیزوں میں قائم کر لیا جاتا ہے مثلا محبوب کی نیم باز نگاہوں اورجام مے میں بسی سکر ومستی اورہونٹوں کی نزاکت اور گلاب کی پنکھڑیوں میں موجود تشبیہ ،  اپنے جلو میں ایک طرح کی موضوعیت کو لئے ہوئے ہیں  ۔

اوریہ کہ جمالیات کے مظاہر ومواد اورطرق ووسائل   جب سب فطرت نے مہیا کئے  ہیں تو خود فطرت کو ہی اپنی معنویت اور مقصدیت کے ساتھ کیوں اس سے خارج از بحث مانا جائے۔پرندوں اور جانوروں کی خوش الحانیاں، جنگل اور پہاڑ ودریا کی یہ خوبصورتیاں کیا ویسی ہی جمالیات نہیں تشکیل دیتیں جو شاعری یا موسیقی اور مصوری دیتی ہیں؟

کس قدر کورذوقی ہو گی جو پھول کی پنکھڑیوں کی نزاکت ونکہت کا انکار کروائے، اور دریا کی سبک روی اور سحر سے متاثر نہ ہو ۔اورکس قدر بدذوقی ہوگی کہ آبشاروں میں بہتی ہوئی چاندی اور اس کی جھنکار سے لطف اندوز نہ ہونے دے،اور کوہساروں میں پھیلے مرغزاروں کے تاثر وکیف سے دیدہ ودل کو بچائے رکھے۔

جمالیات کا اسلامی تصور

مبدا جمالیات

ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی اپنے بارے میں فرماتے ہیں؛میری ذات ایک مخفی خزانہ(hidden treasure)کی مانند تھی۔تو میں نے چاہا کہ مجھے جانا پہچانا جائے۔اس لئےمیں نے تمام مخلوقات (حیات وکائنات)کو پیدا کیا۔ایک دوسری روایت کے مطابق اللہ تعالی حسن وجمال اورکمال اوصاف کامرقعہ ہیں، اور وہ حسن وجمال کو پسند فرماتے ہیں۔

ان دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن مطلق، حسن ابدی،منبع وسرچشمہءجمال کا تقاضہ ہےکہ دنیامیں چہار سوجمالیات کاظہور  ہو۔ اور اس کی منت پذیریوں (inspirations)سے اس کے روابط،نسبتیں اورفروعات وجزئیات ہر طرف پھیل جائیں اور ہر چیز میں سرایت کر جائیں۔

اللہ تعالی نقاش ازل اور خطاط خوب تر کی صفت سے متصف ہے، وہ جمال کا سرچشمہ بھی ہے۔اس لئے لازم تھا کہ اس کا ایک ایک نقش ، نقشہ اورشوشہ خود میں حسن وجمال کی فراوانیاں لئے ہوئے ہو۔کیونکہ اللہ تعالی نےاس کائنات کو صرف پیدا نہیں کیا بلکہ اس کے بناؤ اورسنوار کا بھی اہتمام کیا ہے۔

جزئیات اورکلیات کااشتراک

اس عالم رنگ وبو  میں جزئیات الگ تھلگ، بے جوڑ اور انمل نہیں ہیں کہ ان میں اور کلیات میں مناسبت ا ورتعلق کی کوئی صورت کارفرما نا ہو، تمام جزئیات میں ایسے مشترک اسباب ، ایسی مشترک نسبتیں اور پہلو پائے جاتے ہیں کہ جن سے طبیعیات، جمالیات اور مذہب واخلاق کے ایسے اصول جانے جا سکتےہیں جن کے بل پر انسانی تہذیب وتمدن کے کاخ ہائے بلند کی تعمیر ہوسکتی ہے۔اور تہذیب وتمدن اورثقافت کے رواں دواں قافلے آگے بڑھتے اور نئی نئی راہوں اور منزلوں کا کھوج لگاتے ہیں۔

الغرض جمالیات اپنی کثرت میں مظاہر قدرت ہے اوروحدت میں سمٹ کرخداوند متعال کے مترادف ہے جس کی تعریف، توضیح اور تفصیل وتشریح جتنی بھی کی جائے کم ہے۔

پھرجس نے یہ ساری کائنات تخلیق کی اس کی کوئی بھی تخلیق جمالیاتسے خالی ہو بھی کیسے سکتی ہے؟خدا کی جمالیات کی سب سے بڑی دلیل  یہ ہے کہ اس نے انسان کو احسن تقویم یعنی سب سے بہترین اور مثالی روپ اور ڈھانچہ میں پیدا فرمایا ہے۔اور اس کی جسم وجاں میں جمالیات کے إحساس وادراک کے بیج بو دئے ہیں۔اس کی فطرت میں حسن وجمال کے ایسے مبادی سمو دئے ہیں جن کے بل پر اس کا جمال ذاتی ، جمال کائناتی سے رشتہءمناسبت اور اشتراک رکھتا ہے۔

حسن پسندی اور حسن کاری(Beauty&Beautification)

اسلام کی تعلیمات سے ایک طرف حسن پسندی (جمال)تو دوسری طرف حسن کاری(اظہار وتخلیق جمال) کی حوصلہ افزائیوں پر روشنی پڑتی ہے۔وہ انسان کو ہر معاملہ میں پرفیکشن (تکمیل)   اور ابداع وبراعت(Mastry) کی تلقین کرتا ہے۔ اس لئےجومسلمان ماہرین فن اور کاریگر جو اپنی اپنی مصنوعات اوردستکاریوں میں استواری، تناسب وموزونیت پیدا کرتے ہیں ان کےاس فعل کوخدا تعالی محبوب رکھتے ہیں۔

اسلام ضروریات سے بڑھ کر آسائش وراحت، رفاہیت وزینت اور الطیبات من الرزق کے استعمال سے گریز کرنے والوں کو عتاب سے نوازتا ہے۔وہ شاہی سازوسامان کو بھی نبوت کےلئےجوانسانیت کے ارتقاء کی آخری منزل ہے،اس کےمنافی خیال نہیں کرتا۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق قرآن میں شیش محل،عرش وتخت،کرسی، محاریب وتماثیل، قدور راسیات (بڑی بڑی ضیافتوں کے سامان) ، عمدہ گھوڑے اور ہر قسم کےمعمار،صناع اورغواص، جنود سب ہی چیزوں کا ذکر کرتا ہے اور اسےقرب الہی کے عالی مقام ومرتبہ کے منافی نہیں سمجھتا۔

جمالیات اور نفسیاتی مسائل

فنون جمیلہ اور اسلام

اسلام بطورضابطہء حیات اپنا ایک مقصداورنصب العین رکھتا ہےجو کہ فردو معاشرہ کی اصلاح و تعمیر ہے۔ اس کے اپنے کچھ اخلاقی پیمانے اورروحانی معیار ہیں۔ اور اپنا ایک مزاج اور تشخص ہے اور فنون لطیفہ کی حیثیت اس کے مقابلہ میں زندگی کے منہج واسلوب کی نہیں محض ذریعہ ءابلاغ کی ہے اس کے تقاضے اور مضمرات بہرحال دین واخلاقیات کے تابع رہیں گے اور اسی نسبت سے ان کے جواز یا افادیت کا دائرہ طے کیاجائےگا۔ جس سے یہ اسلامی اورفطری اقدار کے فروغ واشاعت کا ذریعہ قرار پائیں گی۔

جمالیات کی تسکین یا تعمیر؟

البتہ یہ تو طے ہے کہ احساس جمال کے بارے میں کسی طرح کی کنجوسی یا اختصاص جائز نہیں۔ہر فنکار کا یہ فرض ہےکہ فطرت کہ اس عطیہ کا اظہار کرے، معاشرے میں پھیلائے اور سوچ وفکر اورذوق کا جزو بنائے۔لیکن کوئی معاشرہ اخلاقی اقدار سے بےنیاز رہ کر ترقی نہیں کر سکتا، لہذا ضروری ہےکہ ماہرفن اورفنکار کچھ اصول وکلیات اور معیارات کو اپنا کر آگے بڑھے۔اگر کوئی فن مشکلات کے سلجھانے میں کوئی مدد نہیں کرتا ، درپیش مسائل پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا، یا قانون، قاعدہ اور روایت کی آنکھوں سے اوجھل ان نازک گوشوں کو منظر عام پر نہیں لاتا جن کا تعلق باطن ومعنی سے ہے تو وہ فن نہیں، اسے بےگار یا بیکاری کا ایک مشغلہ کہنا چاہئے۔

فنون لطیفہ کلچر کا جزو ہوتے ہیں، اسلام تہذیب وتمدن کے حسن اورمعاشرتی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے، ان فنون  جمیلہ کو  پروان چڑھاتا ہے۔ گانابجانا ،سماع  اور آلات موسیقی سرے سے ممنوع نہیں ہیں۔ جو چیزیں آلاتِ موسیقی کے بغیر سننا جائز ہیں، وہ آلات موسیقی کے ساتھ سننا بھی جائز ہیں۔اصل بنائے حرمت الہاء (مقصد سےغفلت میں ڈالنا)ہے جو باطل کلام سےپیداہوتا ہے اور شراب،شباب  اور رقص وسروداس کو دوچند کر دیتا ہے۔اب جہاں سماع وغناء ایسا ہو جو جائز خیالات اور فطری جذبات واحساس  جمالیات کی تعبیر کرتا ہواور اس پر مزید یہ کہ وہ جملہ فواحش اور منکرات کی حاشیہ آرائی سے بھی خالی ہو تو اس کی اباحت کو بھی حرمت سے بدلنا غلو ہے۔

 جمالیات کا تعمیر شخصیت سے تعلق

معروف مفکر مولانا محمد حنیف ندوی کے مطابق؛ اگر کوئی تہذیبی نقشہ انسانی ضروریات اوراس کےمضمرات ارتقاءکا لحاظ نہیں کرتا،، اسکے فکری اور جذباتی پہلوؤں کے لئے تسکین کا تسلی بخش سامان مہیا نہیں کرتا ،، الٹا فکر ودانش کے داعیوں کا مضحکہ اڑاتا ہے تو جمالیات کا یہ فقدان زندگی گزارنے کا ایسا لائحہ عمل نہیں قرار پا سکتا ہے جس کو انسان بخوشی قبول کر لے،ا اگر جبری طور پرقبول کربھی لے تو اس میں وہ مسرت محسوس کر پائے جو سچے دین کے ساتھ خاص ہے۔

فلسفہءوجودیت کے حاملین نے جمالیات کے اس گوہرنایاب اوربیش قیمت فلسفہ کی اہمیت کو نا جانااور زندگی کی بےوقعتی اور ناقدری کرنےلگےاور اسے عدم سابق اور عدم لاحق کے مابین ایک وقفہ قراردیا ۔جس میں مقصد زندگی فقط داخلی وخارجی پریشانیوں اور اضطرابات سے بچنے کا طریقہ تلاش کرنا ہے۔ان کے مطابق زندگی گویا کہ اصل چیز نہیں بلکہ اصل موت اور فناہے۔

وجودیت پسندوں نے خواہ مخواہ اضدادِ حیات کو مستقل حیثیت دے ڈالی،کیونکہ مایوسی ، افسردگی اور آزردگی مزاج سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں کوئی فلسفہ حیات نہیں ہیں۔ زندگی کو مسائل، مشکلات اور اضطرابات کے پیمانے سے نہیں جانچنا چاہئے۔اس کو فکری، فنی اور تہذیبی فتوحات  اور پیش قدمیوں کی صور ت میں دیکھناچاہئے۔

زندگی کمیت کانام نہیں کیفیت کا نام ہے۔چنانچہ اس کی جمالیات کا احساس وادراک رکھنے والوں کے نزدیک عرفان وادراک کا ایک لمحۃ اور نصب العین کو پا لینے کی آرزو کا ایک پل ایسا قیمتی ہے جس کے مقابلہ میں ایسی حیات جاوداں جس میں فکر وتخیل اوراحساس کی جنبشیں نہ پائی جاتی ہوں،بالکل ہیچ اور بیکار ہے۔

خلاصہءکلام

جمالیات ہمیں وہ فلسفہء حیات فراہم کرتی ہیں جس کی رو سےحیات اورکائنات کے متعلق ایسا تصور پیدا ہوتا ہے جو سب انسانوں کے فطری رجحانات کا آئینہ دار ہےاور اس کے ساتھ ساتھ تمام بنی نوع انسان کی فلاح وبہبود اور فائدہ کاکفیل بھی ہوتا ہے۔اس میں امیدکی یہ کرن ہے کہ دنیا کی حیثیت حریفانہ نہیں ہے اور اسے اس لئے بنایا گیا ہے کہ انسان اس کی خوشگواریوں اورسازگاریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اس کی دشواریوں پر قابو پائے اورجمالیات کے روح آفرین تاثرات وتخیلات کے بل پراس کو بنائے،سنوارے،جلا دے اور اسکے مضمرا ت ارتقا کو اجاگر کرے ۔

مزید پڑھئے:    رجائیت پسندی (Optimism)کیا ، کیوں اور کیسے؟