خودغرضی کامفہوم:
خودغرضی ایسے رویہ کا نام ہے؛ جس میں اپنے ذاتی مفاداورمطلب، یا اپنی خوشی، بہتری اوربھلائی کے لئے یکسوہو جایا جائے، قطع نظر اس سے کہ اپنی مطلب براری میں دوسروں کا بھلا ہوتا ہویا نقصان۔
فہرست
خودغرضی کے درجات
1- خودغرضی کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے بھلے برے کو مدنظر رکھتے ہوئے ترجیحات کا تعین کرے۔جو اس کے مفید مطلب ہے، نفع بخش ہےاس کو اختیار کرے۔اور جو اس کے لئے ضرررساں ہے، اس سے بچنے کا اہتمام کرے۔
2- خود غرضی کا ایک درجہ یہ ہےکہ انسان اپنے فائدہ اور نقصان کی خاطر ہر جائز وناجائز طریقہ اختیار کرنے لگے، اور اس میں ایسی افراط وتفریط میں مبتلاء ہوجائے کہ اپنےلئے غیر ضروری راحت اور آسائش کے سامان مہیا کرنے میں منہمک ہوجائے۔اور مستقبل کے متعلق غیر ضروری پیش بندیاں کرنے لگے، جو محض مفروضوں(superstations) اور قیاس آرائیوں (speculations) پر مبنی ہوں۔
3- خود غرضی کا تیسرا اور آخری درجہ وہ ہےجب انسان نرگسیت، خودستائشی میں ایسا محو ہوجائے کہ اسے اپنے سوا کوئی دکھائی نا دے۔خودپسندی کی یہ معراج اسے خودمختاری کے احساس پر اکساتی ہے۔اس کیفیت میں وہ اپنی ذات ،انتخاب اور افعال کو راجح تر قرار دیتا ہے، جس کے سامنے دوسرے آپشنز اور چوائسز ہیچ اور بے معنی ہوتے ہیں۔خودغرضی کے اس درجہ کو غرور (ego) اور خود الوہی کا درجہ کہنا درست ہو سکتا ہے۔اس درجہ میں بقائے باہمی اور اجتماعیت کے تمام رشتے ناطے دم توڑ دیتے ہیں۔
نوٹ
اگر غور کیا جائے تو خودغرضی کا پہلا درجہ ایسا درجہ ہے جو صرف انسانوں سے خاص نہیں ، بلکہ حیوانات اوربھائم تک میں فائدہ نقصان کے یہ احساسات (instincts)پائے جاتے ہیں ۔چنانچہ یہ ایک طبعی اور فطری جذبہ ہوا۔یہ منفی جذبہ نہیں ہے، بلکہ اسے خودغرضی کی بجائے خود کی خیرخواہی کہا جانا چاہئے۔
البتہ دوسرا اور تیسرادرجہ اس لحاظ سے مذموم ہے کہ اس میں دوسروں کے فائدہ نقصان کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔الٹا تیسرے درجہ میں تو خودمرکزیت کے احساس کے ساتھ دوسروں کو اپنا محکوم ،غلام اور خدمت گزار سمجھا جاتا ہے۔اور اپنے فائدہ اور خوشی کی خاطر ان کو بس ایک بے شعوراور بے قیمت واسطہ (tool)کے طور پر استعمال کیا جاتاہے۔
خودغرض لوگ کی پہلی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز کے مستحق ہیں۔ان کی راہ میں کوئی تقدیر یا تدبیر رکاوٹ نہیں بن سکتی۔وہ ہر کامیابی کو اپنی محنت کاثمر سمجھتے ہیں، اور اس میں کسی کے تعاون یا اشتراک کو لائق عنایت نہیں سمجھتے۔اسی لئے وہ کسی کا اختلاف رائے یا تعمیری تنقید بھی کبھی قبول نہیں کرتے ۔نا وہ اپنی کمزوریوں کو کمزوری مانتے ہیں اور نا ہی دوسروں پر ظاہر کرتے ہیں۔الٹا وہ دوسروں پر بےجا تنقیدکا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
تحلیل اورتجزیہ
خودغرضی کی بدولت کائنات اور حیات کے متعلق ایک ناقص، محدود اور بے جان (non-organic)رشتہ پنپتا ہے۔جو کہ کائنات وحیات کے بارے میں بےمقصدیت،غلط انتخاب ہدف ومنزل ، غروراور الوہیت نفسی جیسے برے اور فاسد رجحانات ومیالانات پر مشتمل ہوتا ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہےکہ خودغرضی کی بدولت دیگر حیات اور انسانیت سے محبت اور بقائے باہمی کی نفسیات کی بجائےعداوت،حقارت،سبقت ، خودپسندی ،غرور،کے منفی جذبات وخیالات پیدا ہوتے ہیں۔اورباقی کائنات وجمادات کے معاملہ میں لغویت، بے مقصدیت،بےمعنویت،کے ساتھ ساتھ لھو ولعب،خودملکیتی کی نفسیات پیدا ہوتی ہے جس کے مطابق وہ یہ ماننے لگتا ہے کہ اسے جو کچھ حاصل ہے وہ کسی مالک الملک کی بخشش وعطاء نہیں کسی کی نعمت وامانت نہیں، کسی کی جانب سے امتحان وآزمائش نہیں ۔اس کی اپنی کارگزاری ہے، جس میں اپنی محنت اور ذہانت سے اس نے کامیابی حاصل کی ہے۔
اس طرح خودغرضی کی ایک بدخصلت جب راسخ ہوجاتی ہےتو اپنے ساتھ بہت سے رذائل اور مفاسد کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ اور خودغرض انسان خود کو نفسیاتی مریض اورمجموعہء امراض بنا لیتاہے۔اور اس کے نتیجہ میں وہ اپنی ذات کامجرم تو ہوتا ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ دیگر کائنات اور خدا کا مجرم بھی بن جاتا ہے۔
علاج وتدابیر
انسان کی معلوم علمی تاریخ چاہے وہ فکری ومعرفی رہی ہو، چاہےفلسفی ونظری یا سائنسی وادراکی۔۔ اس نے ہمیشہ اپنی تمام تر جولانیوں میں انسان، کائنات اور خدا کی تکون کے بارے میں، ان کے باہمی رشتہ اور تعلق کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔اس تمام سعی میں فلسفہ نے خدا کا اعتراف تو کیا لیکن ناقص طور پر ،اس نے اسے وہ جائز مقام دینے میں غلطی کھائی جو اس کی ذات ستودہ صفات کے لائق تھا۔اس کے مقابل سائنس نے تو اپنی بازیافت کی بنیاد ہی احساس ومشاہدہ پر رکھی اور غیرمرئی موجود خدا تعالی کا انکار کیا۔ان دونوں کے برعکس مذہب نےان تینوں کے متعلق ایک جامع تصور اور پلان مہیا کیا۔جس پر استوار ہو کر انسان ایک فطری اورفلاح وبہبود پر مبنی زندگی بسرکر سکتا ہے۔
اس معاملہ میں مذہب کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہےکہ انسان کا خدا سے تعلق عبادت(بندگی)کا ہے۔دوسرے انسانوں سے تعلق اخوت اوررفاقت کاہے۔اور باقی کائنات سے تعلق اس کی نظم وتدبیر، اصلاح وانتظام ، تعمیر وآبادی کا ہے،جسے خلافت(یا نیابت ِخداوندی) کا نام دیا جاسکتا ہے۔
اس کائنات کا حقیقی نور اور وجودِ مسعود ایک ہی ذات والا صفات ہے۔اور وہ خدا تعالی کی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔کائنات میں جو بھی ذرہ بھر شعور یاوجود پایا جاتا ہےوہ اس ذات کی تجلی ہے۔اسی کلی کی جزئی ہے، اسی اصل کی فرع ہے، اسی حقیقت کاظل ومجاز ہے۔اور اس اعتبار سے سب کی حیات وبقاء اسی کے مرہون منت ہے۔خدا اس کائنات کا نیوکلیئس ہے، اس کائنات کے تمام الیکٹرانز وپروٹانز کا مرکز ثقل ہے۔اور وہ قوت ماسکہ وجاذبہ ہے جو سب کو ایک ساتھ جوڑے ہوئے ہے۔جیسے ایک باپ کے ناطے سے تمام اولاد باہم ایک رشتہ سے منسلک ہوتی ہے۔اور یہ رشتہ بہت قوی ہوتا ہے۔
اس اعتبار سےکل کائنات میں جو حیات ہے وہ خدا کا عیال (کنبہ )ہے۔اور تمام انسانیت آپس میں ایک برادری کے رشتہ سے جڑے ہوئے ہیں۔یہاں کسی کو ایسی اجنبیت ، غیریت ، امتیاز اور انفرادیت نہیں ہے کہ اسے دوسروں کو حقارت سے دیکھنے کی ضرورت پیش آئے یا ان سے مقابلہ، مزاحمت اور عداوت کی ہی ضرورت ہو۔بلکہ جو اس نظر سے سوچے گا وہ اس کی جگہ محبت، اخوت،شفقت اور خیرخواہیکے جذبات اپنے دل میں پائے گا۔
اسیلئے مولانا شہاب الدین ندوی لکھتے ہیں ؛ اسلام پورے انسانی معاشرہ کو ایک قبیلہ اور ایک خاندان کی شکل میں تبدیل کرنا چاہتا ہے اور یہ سارے مقاصد اس وقت تک واضح نہیں ہو سکتے جب تک کہ ذہن انسانی میں انسان، کائنات اور خالق کائنات کے تعلق باہمی کا صحیح تصور اور تخلیق کائنات کی غرض وغایت واضح نہ ہو جائے۔
جب انسان کے سامنے خدا اور دیگر انسانوں سے تعلق اور معاملہ کی نوعیت واضح ہو جائے گی تو باقی سب کائنات وجمادات کے متعلق بھی اس کا نکتہء نظر یکسر تبدیل ہوجائے گا۔وہ اس کائنات کو محض اپنے فائدہ کی چیز نہیں سمجھے گا کہ اسے بس اپنی آسودگی کی بھینٹ چڑھادے۔بلکہ وہ اسے خدا تعالی کی نعمت، امانت اور امتحان سمجھتے ہوئے ایک نصب العین کے تحت ایک مقصد کے تحت اپنے استعمال میں لائے گا۔وہ اسے خدا کا فعل مانتے ہوئے اس میں خفتہ نظم وقاعدہ کے سانچوں کو جاننے کی کوشش کرے گا تا کہ اس پر خدا تعالی کی ابداع اور خلاقی نمایاں ہو سکے۔اور خدا تعالی کی بخشی توفیق سے اس کائنات کو تسخیر کر کے اس میں دفن وہ خزانے برآمد کرے گا جن کو خدا تعالی نے اس کی ضرورت ، راحت اور بقاء کے لئے ودیعت کر رکھا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے مطابق آسمانی کتابوں تورات وقرآن کی تعلیم کا مقصد کسی ایک فرد انسانی کی تکمیلِ شخصیت نہیں بلکہ نوعِ انسانی کی ترقی،تربیت ا ورنشوونما ہے۔اب اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس کی ابتداء ایک فرد سے ہو کر ایک سماج اور معاشرہ کی تکمیل وترقی کو پہنچے یا ایک صالح ومستقیم معاشرہ ایسے فرد کی تکمیل کردارکا سبب بنے، مقصود سب کی صلاح وفلاح ہے۔
جب تک انسان، کائنات اور خدا کے متعلق انسان اپنی سوچ اور عقیدہ واضح طور پر متعین نہیں کر لیتا۔ان کے باہمی تعلق، حقوق اور تقاضوں کوجان نہیں لیتا وہ کبھی بھی خودغرضی کے ڈائلما سے نہیں نکل سکتا ۔بلکہ درحقیقت اس کے علاوہ کسی بھی قسم کی کوئی بھی تعلیم وترغیب ، اورافہام وتفہیم اس کے لئے وہ حدود طے نہیں کر سکتی جس سے وہ اپنے فائدہ اور دوسروں کے فائدہ کے درمیاں حدِفاصل کا ٹھیک ادراک اور امتیاز کر سکے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ توحید پر ایمان وایقان نکتہءوفاق ہے۔ اور دین کالب لباب دوچیزیں ہیں؛ خداشناسی اور خودشناسی۔اور خودشناسی کے ضمن میں عبدیت کے تقاضے سے تمام طاعات حسب درجات شامل ہیں۔اور اسوہءرسولﷺکے مطابق تمام طاعات راہ سعادت ہیں۔جن کو اختیار کرنے سےا یسے فوائد وثمرات حاصل ہوتے ہیں جس سے حیات وکائنات ہر دو مستفید ہوتے ہیں۔
چنانچہ مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوری کے مطابق پورے قرآن کا خلاصہ تین جملوں میں: عبادت اللہ کی. اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی. خدمت خلق خدا کی۔
اور معروف مفکر ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی نظر میں اسلام چند الفاظ میں: “درست عقیدہ، خالص عبادت، بھلے اخلاق، تعمیرِ ارض (میں مثبت کردار)، مخلوق پر شفقت، خیر کی دعوت، تواصی بالحق، تواصی بالصبر۔“
مزید پڑھئے: منفی معاشرتی رویے؛اسباب اورنتائج۔ ناشکری کا علاج
[…] پڑھئے: خودغرضی ایک نفسیاتی تجزیہ۔ معیشت پر نفسیات کے اثرات۔ انفرادی نفسیات پر اجتماعی […]