ملینیئل سروے:
س:ایک بہترین لائف کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ کیا چیز ہمیں خوشی اور طمانینت بخشتی ہے؟
ج:ایک ملینیئل سروے جس میں724 بالغ عمر افراد کی زندگیوں پر مرحلاتی ریسرچ کی گئی اور یہ شاید تاریخ کی طویل ترین ریسرچ رہی ہےجو کے ابھی تک جاری ہے، اس ریسرچ کے ڈائریکٹرز میں سے چوتھے ڈائریکٹر “رابرٹ والڈنجر” اس اسٹڈی کے 75 سالہ نتائج کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں کہ:جب مختلف ایج گروپ (25-40-60-90)کے لوگوں سے مذکور سوال پوچھا گیا تو 80%کا کہنا تھا کہ دولت ایک بہترین لائف کے حصول کا ذریعہ ہے، 50% نے شہرت کو دوسرا میجَر گول قرار دیا جبکہ تقریبا سبھی نے ہارڈ وَرک کی اہمیت جتائی، ڈائریکٹرصاحب کہتے ہیں ہماری 75 سالہ اسٹڈیز کے نتائج اِن میں سے کسی بات کی تصدیق نہیں کرتے، یہ کولیسٹرول لیوَل نہیں ہے جو یہ طے کرے کہ کون کتنا زیادہ جیئے گا اورزندگی بھر کتنا خوش اورصحتمند رہے گا، رادَر جو بات صحت اور طمانینت کو یقینی بناتی ہے وہ اچھے تعلقاتِ عامہ ہیں ۔فیملی،فرینڈز اور سوسائٹی میں آپ جتنا صدق وصفاء،وفاءو ایفاء ، نفع وامتاع کے ساتھ رہیں گے اتنا ہی تندرست وتوانا اور خوش وخرم رہیں گے اور جسم کے ساتھ دماغ بھی ان اچھے اثرات سے بہرہ مند ہوتا ہے۔
تبصرہ
خالقِ کائنات سے انکار والحاد اس کی بھیجی ہوئے تعلیمات وہدایات سے انحراف واغماض کن بھول بھلیوں اور متاھات کا شکار بنا دیتا ہے، یہ اس کی ادنی مثال ہےکہ تقریبا سو سالہ بحث وتمحیص کے بعد بھی انہوں نے پایا تو کیا پایا ، آدھا سچ اور بس! اگر یہ اپنی لاچارگی اور بے کسی تسلیم کرتے ، اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتے اپنے رب کی معرفت اور اس وجدانی بصیرت سے کام لیتے جو رب تعالی نے انہیں بدءِ خلق کے وقت عطاء کی تھی اور اس واضح اور نیّر وتاباں راہنمائی سے جو وحی والہام کی صورت ان تک پہنچی تھی سے نا منہ موڑتے تو اپنے سوال کا مکمل جواب پاتے، اور یہ سمجھ جاتے کہ انسان کی مثال تو اس شاخِ شجر کی سی ہےجس کا برگ وبر ، رنگ وپھل، نکہت ،نکھار اور ازدھار اور دوسری ٹہنیوں سے امتزاج اسی شجر سے پیوستی میں ہے ،جیسے ہی اس سے کٹی ، برباد وخوار وغیر استوار ہو کہ رہ جاتی ہے۔انسان کے رگ وپے میں دوڑتی یہ زندگی، اس کے وجود میں یہ گرمی، اس کی صلاحیتوں کی یہ تابندگی، اس کے تصرفات کی یہ جولانی اس کی دنیا کی شادمانی اورآخرت کی کامرانی اس حیّ قیّوم ذاتِ باری سے وابستگی اور وارفتگی میں ہے جو مالک الملک، خالق الکل، کائنات میں اصل مدبّرومتصرّف ہے جس کے اشارہ ابرو کے بغیر پتہ بھی نہیں سرکتا۔ پیغمبرِ خدا نے اول یوم سے اسلام کا خلاصہ الدین النصیحۃ کہہ کر بتایا کہ دین نام ہی “حق شناسی” کا ہےکہ سب سے پہلے اپنے ربّ وخالق کا حق پہچانے اور پھر درجہ بدرجہ اس کی ساری مخلوق کا بھی، کیونکہ الخلق عیال اللہ تمام مخلوق اللہ تعالی کا کنبہ ہے۔قرآنِ کریم سورہ الحدید میں تمام رسل وکتب کے انزال کا مقصد عدل وانصاف کا قیام قرار دیتا ہے، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ہماری معیشت معاشرت سیاست سب کی بنیاد عدل وانصاف ہے اور اس بنیاد پر تشکیل پانے والا معاشرہ اور اس کے افراد خوشی خوشحالی تندرستی ہر نعمت سے بہرہ مند ہوں گے اور اس سب سے بڑھ کر یہ کہ کل آخرت میں اپنے ربّ کے سامنے سرخرو ودلشاد ہوں گے۔
Add Comment