قربانی اورنفس کشی
Hmary muashry main qurbani ka falsfa ke ziman main nafs-kushi or Khwahishat ki qurbani ki Hikmat byan ki jati ha. Or is bat ko numayan krny ki koshish ki jati hy ke eid e qurban ky is khas moqa par Allah Taala ke Huzoor jan or mal ki qurbani paish kar ke or nafsani Kwahishat or tqazon ko mita kar Allah Taala ki riza-joi mqsood ha.
Lakin yhan ak pehloo sy ghflat barti jati ha.or wo islah e nafs main nafs-kushi ki hdood or dayray ka ta’yun karna ha.kion ke islam ki hikmat ka mutabik nafs-kushi sy murad ye nahi ke nafs par lazzat or khwahishat ke husool ko siray se mamnoo thehra dia jay.
ہمارے معاشرے میں قربانی کے فلسفہ کے ضمن میں نفس کشی اور خواہشات کی قربانی کی حکمت بیان کی جاتی ہے۔اور اس بات کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہےکہ عید قربان کےاس خاص موقعہ پہ اللہ تعالی کے حضورجان اور مال کی قربانی پیش کر کےاور نفسانی خواہشات اور تقاضوں کو مٹا کراللہ تعالی کی رضاجوئی مقصود ہے۔
لیکن یہاں ایک اہم پہلو سے غفلت برتی جاتی ہے۔اور وہ پہلو اصلاح نفس میں نفس کشی کی حدود اور دائرے کا تعین کرنا ہے۔کیونکہ اسلام کی حکمت کے مطابق نفس کشی سے مرادیہ نہیں کہ نفس پر لذات اور خواہشات کے حصول کوسرے سے ممنوع ٹھہرا دیا جائے۔
اور اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق قربانی کرنے والےکو قربانی کے گوشت سے محروم نہیں رکھاجاتا۔ اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ تمام گوشت اپنے لئے خاص کر لےاور یہ بھی جائز ہے کہ سب گوشت خدا کی راہ میں صدقہ کر دے۔البتہ پسندیدہ یہ ہے کہ وہ اس کے تین حصے کرتے ہوئے ، ایک حصہ غریب فقراء کے لئے ، دوسرا حصہ خویش واقارب کے لئے اور تیسرا حصہ خود اپنی ذات اور خاندان کے لئے مخصوص کر ے۔
فہرست
نفس کشی کے دائرہ کا تعین(Nafs-kushi ke dayre ka tayun)
اللہ تعالی کو ہمارے گوشت وخون سے سروکار نہیں ۔نا ہی اس کا مقصود یہ ہے کہ انسان کو اس کے مال وجان سے استفادے کے معاملہ میں مجبور اور پابند بنا دے۔اس کے لئے جو بات اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ کس جذبہ، مقصداور نصب العین کے تحت اس کی رضاجوئی کی کوشش کرتا ہے۔
اسلام ہمیں جو جامع تعلیم دیتا ہے اس میں اعتدال ، میانہ روی اور راست روی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔وہ افراط وتفریط سے دور رہ کر اور بغیر دنیا کی حق تلفی کئے، خدا اور آخرت کی ترجیح کے جذبہ ومقصد پر قائم ہے۔ اس کی بنیاد آخرت کی سعی اور حق وصداقت کے لئے جہد مسلسل اور لازوال زندگی کے حصول کے لئے عارضی خواہشات کی قربانی اور رضائے الہی کی طلب ہے۔
نفس پروری اور نفس کشی (Qurbani or Nafs-kushi)
دین ودنیا کے تعلق کے بارے میں مذہب کی صحیح وسلیم فطری تلقین سے برگشتہ ہو کر انسان ہمیشہ بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار ہوا۔اور ہمیشہ دو انتہاؤں کے مابین دربدر بھٹکتا رہا۔
اس نےطبعی تقاضوں اور جذبات کو اپنے لئے تمام مصائب وآلام کا سبب گردانا۔اور بلاوجہ یہ سمجھا کہ نفسانی خواہشات اور تقاضے اسے مختلف قسم کی مشکلات میں مبتلاء کرتے ہیں۔یہ آرزوئیں اور تمنائیں ہیں جو اسے زندگی کی حقیقی مسرت اور شادمانی سے محظوظ ہونے کا موقعہ نہیں دیتیں۔وہ اسے انگزائٹی اور ٹینشن میں مبتلاء رکھتی ہیں۔
انسان نے دنیوی فائدہ اور اخروی ثواب کو شمالی قطب اور جنوبی قطب کی مانند خیال کیا۔ کبھی محض دنیوی عارضی فائدہ کو ترجیح دی۔اور اسے ہی صحیح حل سمجھا۔اوراپنی راحت وعافیت کا سامان اسی میں مہیا پایا۔اور اخروی فائدہ کو ایک خواب و سراب قرار دیا۔اور کبھی اس نےاخروی ثواب کی امید کو اپنے لئے حفظ وامان کاضامن پایا۔اور اس کی خاطر دنیوی فانی فائدہ کو تج دیا۔
لیکن درحقیقت یہ ایک انتہاء کا علاج دوسری انتہاء سے تھا۔ایک جانب مادی انتہاء پسندی تھی تو دوسری جانب روحانی انتہاء پسندی تھی۔اور ان رجحانات سے بنی نوع انسان کو خسارہ کا سامنا کرنا پڑا۔انسان کے لئے دنیاوی فائدہ اور اخروی ثواب دونوں یکساں اہمیت رکھتے ہیں، اور ان دونوں میں تضاد کی کوئی نسبت نہیں ہے۔
مادیت پسند لوگ زندگی کے باطنی حسن کا نظارہ نہ کر سکے، روح ومعنی کے لطائف سے محروم رہے اور اس قابل نہ ہو سکے کہ جسم ومادہ کی چلمن ہٹا کر عروس حقیقت کی جلوہ آفرینیوں سے قلب ونظر کی آسودگی کا اہتمام کر تے۔ انہوں نے جسم کی فقہ تو مرتب کی مگر قلب وروح کر اسرار ولطائف سے ناآشنا رہ گئے۔
اوررہبانیت پسند لوگ ترک دنیا کی منزل پر آکر ٹھہر گئے ۔ ان کے ماننے والے علوم وفنون اور تہذہب وتمدن اور تعمیروترقی کی دوڑ میں دنیا سے پیچھے رہ گئے،یہی نہیں بلکہ ایک گونہ ابہام کا شکار ہو گئے۔بلکہ یہ لوگ ترک دنیا کے اپنے موقف پر بھی قائم نہ رہ سکے۔اس کی دلیل اور تفصیل میں کلیسا اور یورپی نظام کی پوری تاریخ،رومی پوپ ونن ،ہندوستانی جوگی، یوگی، بھکشوؤ، موتک وغیرہ کے ہزار ہا ہزار سال کے ناگفتہ بہ حوادث و واقعات سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔
میانہ روی
دین اوردنیا کا ربط وبندھن کیسا ہو؟ اس کا جواب کسی مذہب کے حق وباطل ہونے کا بہت بڑا معیار ہے۔افراط وتفریط پر مبنی تمام مذاہب اور نظریات کی تلقین یہ ہے کہ اس وسیع دنیا سے انسان کاحصہ یا توبقدرسد رمق کھانا اور دو گز کپڑا ہے ۔یا یہ کہ سب کچھ اسی کے لئے ہے،وہ خود کسی کے لئے نہیں ہے۔
یہاں اسلام کا فلسفہ قربانی(falsfa e qurbani) ہمیں نفس پروری اور نفس کشی(nafs-kushi) کے درمیان ایک درمیانی معتدل راہ دکھاتا ہے، اور وہ ہے ایثار میں میانہ روی۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اپنے دوسرےبھائیوں کا خیال رکھو ان کے دکھ ودرد اور خوشی وغم میں شریک ہو،اپنے مال میں ان کا حصہ سمجھو، انفاق ،اخلاص اورصدقہ سے کام لو۔تو دوسری جانب وہ یہ بھی کہتا ہے کہ یہ جان ومال تمہارے پاس خدا کی امانت ہےاس کا خیال اور لحاظ رکھو۔اپنے مال کو ایسے ہاتھوں میں مت سونپو جو اس کو ضائع کر دیں، کیونکہ اللہ ہی نے اس مال ومتاع کو تمہاری گزربسر کا ذریعہ بنایا ہے۔
دنیا کی نعمتیں اورراحتیں خدا کی عطاء کردہ ہیں اور یہ اخروی نعمتوں اور راحتوں کا ایک نمونہ ہیں۔تسخیر کائنات کے ذریعہ ان نعمتوں کے حصول کو یقینی بناؤ ۔اور ان سے اپنے ذاتی ضرورتوں اور آسائشوں کی تکمیل کے ساتھ بنی نوع انسان کی اجتماعی ضروریات کی تکمیل کا بھی ساماں کرو۔
تاہم اس اعتدال اور میانہ روی کو قائم کرنے کے لئے نہایت تگ ودو، ریاضت اور مجاہدہء نفس کی ضرورت ہےکیونکہ نفس انسانی بدی اور برائی کی جانب تو دوڑ کر جاتا ہے، لیکن خیر وبھلائی کی طرف اسے گھسیٹ کر لانا پڑتا ہے۔
خلاصہ
انسان کے خمیر میں نفسانی خواہشات اور جذبات گندھےپڑے ہیں۔اور اس سے اپنے مقتضیات پر عمل کرنے کی پرزور اپیل کرتے ہیں۔اس معاملہ میں نفس کی مثال پانی کی طرح ہے جو ڈھلان کی طرف روانی سے بہتا ہے۔اور جس طرح اونچائی کی جانب اس کو چڑھانے میں ہمت اور کوشش کرنی پڑتی ہے ایسے ہی نفس کو ملکیت کے فضائل وکمالات سے آراستہ کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔جس کے لیے مختلف مجاہدے ضروری ہوتے ہیں۔
ان مجاہدوں میں سے ایثار اور قربانی بھی ہے qurbani ke falsfa or nafs-kushiسے انسان اپنے پیار اور مال کی ذرہ سی قربانی دے کر نفس کو صحیح رخ پرڈالتا ہے۔لیکن اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ نفس کشی کر کے ان خواہشات کا گلا ہی گھونٹ دیا جائے۔اور ان کو اپنے اوپر حرام فرض کر لیاجائے۔جس کے بغیر خدا تعالی کی رضاجوئی ناممکن الوصول ہو۔ بلکہ نفسانی ضروریات کی تکمیل ایسے اعتدال سے کی جائے جس سے نفس پروری کی بجائے روح پروری کی کیفیت پیدا ہو، اورخداکی یافت اورمحبت کو یقینی بنائے۔
مزید پڑھئے: اصلاح نفس کا فطری طریقہ
Add Comment