معاشرہ افراد کا مجموعہ ہوتا ہےاس لئے کسی معاشرے کے افراد کی ترجیحات ،مفادات اور میلانات اس معاشرے کی اجتماعی نفسیات کی تشکیل کرتے ہیں۔اور اس معاشرےکےمجموعی حال واحوال اس بات کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں کہ افرادِمعاشرہ دراصل کس قسم کے نفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں۔
فہرست
معاشرہ کا افراد پراثر
تاہم معاشرہ بھی بحیثیت مجموعی اپنے افراد کی نفسیات اور عادات واطوار پر اثرانداز ہوتا ہے۔کیونکہ وہ ان کو بندھی ٹکی اقدار وروایات فراہم کرتا ہے، تہذیب وتمدن کےطےشدہ اعلی معیار اورسانچےمہیا کرتا ہے،اور اس کے علاوہ انہیں ایسےمواقع فراہم کرتا ہےجہاں وہ اپنے لئے ارتقائے ذات اور تکمیل ذات سے لے کر اظہار ذات کے تیار شدہ پلیٹ فارمز دستیاب پاتے ہیں۔
لو اور دو کا عمرانی اصول
فرد اور معاشرہ میں لو اور دو(give and take)کا یہ کچھ ایسا مستند اصول ہے کہ؛ نا فرد اپنی فعلیت کی مقررہ حدود وامکانات سے تجاوز کر پاتا ہے، نا ہی معاشرہ افراد کی علمی وعملی کاوشوں اور تعمیر وترقی کی مساعیوں کے اثر ات کو قبول کرنےسے اباء وانکار کر سکتا ہے۔
تربیت وتزکیہ کے فقدان کے نتائج
اس طبعی اورمدنی اصول کےجہاں مثبت پہلو ہیں، وہاں اس کے منفی پہلو ؤں سے بھی تغافل نہیں برتا جاسکتا۔معاشرہ اگر بلند وبالا عمارت ہے تو افراد اس کی اکائیاں اور اینٹیں ہیں۔ان اینٹوں میں خرابی، خامی اورکجی اس عمارت کی تمام درودیوارمیں سرایت کر جائے گی، ناصرف یہ بلکہ بنیاد سے لے کر چھت تک میں جھول اور نقص پیدا ہوجائے گا جو جلد یا بدیر اس کے سقوط اور زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
اگر افراد میں انفرادی سطح پرتعلیم وتربیت اور کردار سازی(character building)پر توجہ مبذول نہیں کی جائے گی تو اخلاقی زوال کا ایک بحران پیدا ہوگا۔جس کے نتیجہ میں کمزور شخصیت اور پست ہمت وارادہ کے مالک افراد کی ایسی کھیپ تیار ہو گی جو اپنے نظریہ وعمل میں پاکیزگی اخلاق، اعتدال، بلند ہمتی، وسیع الظرفی، ایثار وقربانی، محبت ومفاہمت،خدمت واخوت جیسے اعلی اوصاف سے عاری ہوں گے۔اور شخصیت کی اس کمزوری کے باعث شیطانی فتنہ پردازی، اور شرانگیزی ، وساوس اور توہمات کا آسان شکار بنیں گے۔بالخصوص اس صورت میں کہ جب انسان کی طبیعت ومزاج بنیادی طور پر دیگر جانوروں سے زیادہ مختلف نہیں۔اس میں شکم پروری اورشہوت رانی کے تقاضے بھی موجود ہیں اور دوسروں پر غلبہ اور تفوق کے سفلی جذبات بھی موجود ہیں۔ایسے میں خارج سے شیطانی بہکاوے اور اکساہٹ جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔اوروہ بلا کسی تردد یا توقف کےظلم وزیادتی، بدی وبدکاری، مکر وفریب، خیانت ودھوکہ دہی کی تمام حدیں پار کرجاتا ہے۔
معیشت وسیاست میں عدم توازن کے نتائج
اس پر مستزاد یہ کہ حالات کا جبر، مواقع کی محدودیت اورنادستیابی اعلی ذہنی وجسمانی توانائیوں کو پژمردہ اور مضمحل بنا دیتی ہے۔لگے بندھے نظام، خشک وجامد سانچے، تقلیدی اور مرعوبانہ روایات، شکست خوردہ ذہنیت کے کارپردازان اہل حل وعقد جو اغیارکے ٹکڑوں پر پلنے والے ہیں، اپنے انہی بیرونی آقاؤں کی اقدار وروایات کو اپنی سرزمین پر پروان چڑھانے والے ہیں، قطع نظر اس سے کہ غیروں کے وہ سماجی، معاشی ،سیاسی نظام ومناہج ان کی اپنی سرزمین کے باشندوں کے نظریات ،نفسیات اور روایات سے میل کھاتے ہیں یا نہیں۔
ایک مثال سے وضاحت
جیسے ایک پودے کو مناسب حالات، زرخیزمٹی، شیریں پانی،موافق روشنی اور ہوا بہم نا پہنچیں تو وہ کملاجاتا ہے۔اس کی نشوونمارک جاتی ہےاوربالآخر وہ جھاڑ جھنکار میں بدل جاتا ہے۔ٹھیک ایسے ہی اعلی اخلاقی صلاحیتیں،تخلیقی صناعتیں اورجمالیاتی مہارتیں جب اپنے اظہار اور ارتقاء کاراستہ نہیں پاتیں تو وہ زنگ آلود ہونےلگتی ہیں۔اور اگر زیادہ عرصہ یونہی بیت جائے تو وہ کند ہوجاتی ہیں۔اور ٹھیک اس مائع کی طرح جسے جس ظرف میں انڈیلا جائے ویسی ہی صورت وہیئت اختیار کر جاتاہے یہ بھی اپنے اظہار کے غلط طور طریقے اپنا لیتی ہیں، اور اس کے مطابق ڈھل جاتی ہیں۔
انسان کے فضائل جیسے حکمت، عفت،شجاعت اور عدالت اپنے اضداد یعنی جھل، شھوت،غضب اور ظلم جیسے رذائل کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔اس سے حلم وانات، حکمت ودانش، صبر وتحمل، برداشت واستقامت، حیاء وپاکبازی، حلال روزی اور میانہ روی و اعتدال کی بجائے حماقت ونادانی ، شھوت رانی، حرص وہوس، خودغرضی،کمینگی، تکبر ونخوت، ریاکاری اور ہر معاملہ میں بےراہ روی اور افراط وتفریط پر مبنی أفعال واعمال رونما ہونے لگتے ہیں۔
معیشت وتربیت میں عدم توازن کے مجموعی اثرات ونتائج
أ- بےاعتدالی وبداخلاقی کا فروغ:
انفرادی سطح پر نفس کی تہذیب وتربیت کے فقدان کے ساتھ اجتماعی أحوال و واقعات بھی غیرموافق ہوں تو معاشرے میں وسیع پیمانے پرحلال وحرام، جائز وناجائز کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔بے اعتدالی اور بداخلاقی ایسی ہمہ گیر ہوجاتی ہے کہ دوسروں کے حقوق پامال ہوتےہیں۔اور معاشرے میں رائج مناہج، سسٹمز اور پیٹرنز اپنی فاسد اور کج شکلوں اور صورتوں کےساتھ جن میں رشوت، سود، دھوکہ فریب،چوری،ڈکیتی شامل ہیں سب مل کر ایسی اجتماعی نفسیات کو پرورش دیتے ہیں جس میں ناکھانا حلال کا ہوتا ہے۔ نا پینا پاک وصاف ہوتا ہے، اور نا ہی پہناوا جائز وراست ہوتا ہے۔
ب- معاشی بدحالی ،ناہمواری اورمفلوک الحالی:
نظام معیشت میں عدل وانصاف کی بجائے سود اس کی ریڑھ کی ہڈی بن جاتا ہے۔جس کے بنا توقع نہیں کی جاتی کہ وہ اپنا اقتصادی وجود برقرار رکھ پائیں گے۔خدا ئے قیوم سے دوری اور احسان،توکل اور اخلاص کی بجائے فقر وافلاس اورجان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔لامتناہی سودی قرضوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ان کی کمر توڑ کہ رکھ دیتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کے بداثرات سے معاشی ناہمواری عام ہوجاتی ہے، محنتوں کےثمراور اجرتوں کے معاملہ میں نا انصافی کے علاوہ حقوق کے معاملہ میں بے اعتدالی اور ظلم وزیادتی ہر سو چھا جاتی ہے۔
ت- حلال وپاکیزہ اور حرام وخباثت میں عدم امتیاز
اسلام میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیاہے اس کے مختلف اسباب ہیں۔کبھی کسی چیز کو حفظانِ صحت اور بدن کی حفاظت کے لئے، اورکبھی روح کی تہذیب اور بالیدگی کےلئےاورکبھی نظم اجتماعی کے مفاد اور تحفظ کی خاطرحرام قرار دیاجاتاہے۔ اسی طرح بعض جانوروں کے گوشت کی حرمت اخلاقی اور تربیتی پہلو سے ہے۔
بطور مثال دیکھا جائے تو اسلام نے شراب ،خنزیر،خون اور مردارکو حرام قرار دیا ہے۔سائنسی علوم کی پیش رفت نے بھی ثابت کیا ہےکہ خون اور خنزیر کا استعمال مضر صحت ہے۔ان کااستعمال قساوت قلبی،سنگدلی ، بےراہروی ،شھوت رانی کو فروغ دیتا ہے۔ کیونکہ ہر جانور کا گوشت اسی کی صفات رکھتا ہے۔جو ہارمونز اور غدودوں کے ذریعے کھانے والے اشخاص کے اخلاق پر مضراثر ڈالتاہے۔
ایسے ہی ناجائز طریقہ سے ہتھیایا گیا مال بھی نحوست میں لپٹا ہوتا ہے،چاہے وہ سودی کاروبار کے ذریعہ سے کمایا ہویا خیانت، فریب دہی اور دھوکہ بازی سے غصب کیا گیا ہو۔اس کمائی میں ظلم ودست درازی،درندگی،زیادتی ،تفوق،تغلب، ریاکاری اور خودنمائی کے شیطانی اوصاف پائے جاتےہیں۔
حدیث نبوی کے مطابق ایسے شخص کی دعاء قبول نہیں ہوتی جس کا کھانا، پینا اور پہننا حلال وپاکیزہ نا ہو۔اور عدم قبول کی وجوہات واضح ہیں۔دعاء کی قبولیت کی شرائط میں سے اخلاص اور انابت ہےپھرتواضع، فروتنی اورإحساس ندامت کے ساتھ خدا کی جانب رجوع ہے، استغفار اور معافی کی طلب ہے، خدا پر یقین ، توکل اور بھروسہ ہے۔
اب ان صفات اور اوپر مذکور صفات کا تقابل کیا جائے تو کسی پر مخفی نہیں رہ جاتا کہ اپنے کھانے پینے اور پہننے میں حلال وحرام کی تمیز بھلا دینے والا ان کے برعکس خصائل اپنے اندر رکھتا ہے۔اسی وجہ سے وہ خدا تعالی کی رحمت، برکت اور شفقت سے بھی دور اورمردود رہتا ہے۔ایسا شخص تو خدا پرستی اور خدا ترسی کی بجائے خود پروری اور خود پرستش میں مبتلاء ہوتا ہےاس کا تمام تکیہ اور بھروسہ ظاہری ومادی أسباب پر ہوتا ہے۔
خلاصہء کلام
معیشت پر نفسیات کے اثرات کے تقابلی جائزہ سے یہ بات نکھر کر سامنے آجاتی ہےکہ بدی سے بدی ہی پیدا ہوتی ہے ، ایسا نہیں ہوسکتا کہ بدی برائی کا خاتمہ کردے۔یہ طاقت صرف نیکی میں ہےکہ وہ بدی اور شر کو مٹاتی ہے۔حلال وحرام کی تمیز بھلا دینے والے کی نا دعا قبول ہوتی ہے نا عبادت۔حرام غذا کے استعمال سے جسم وجاں متاثر ہوتے ہیں، ایمانی نور بجھ جاتا ہے، دل کی دنیا بنجر وویران ہوجاتی ہے، اس کے دل پر شیطان قابض ہو جاتا ہے،۔ ایسا شخص معاشرے کے لئے ایک موذی جانور کی مانند ہو جاتا ہے۔جس سے شر ہی صادر ہوتا ہے، اس سے نیکیوں اور بھلائیوں کی اشاعت تو کجافحشاء اور شر أمور ہی سرانجام پاتے ہیں۔
مزید پڑھئے: انفرادی نفسیات پر اجتماعی نفسیات کا اثر
پیج کانام اگرچہ لفظ نفسیات کی ترجمانی کررہاہے مگر ہر وقت اور ہر مضمون نفسیات سے متعلق ہو ضروری نہیں
مشورہ ہے اور یہ بھی نفسیات کے تحت ہے
دراصل بلاگرز کے پلیٹ فارم پہ ہر لکھنے والاایک مخصوص موضوع پر ہی لکھنے پر پابند ہوتا ہے۔اس وجہ سے آپ کو تکرار محسوس ہورہی ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا فائدہ بھی ہےکہ قاری کو کسی بھی مخصوص موضوع پر specialised study کا موقعہ ملتا ہے۔
عنوان میں معیشت کےساتھ نفسیات کو اس لئے جوڑا گیا ہے تاکہ دونوں کا ربط وتعلق واضح کیا جاسکے جو بظاہر محسوس نہیں ہوتا۔
[…] پڑھئے: خودغرضی ایک نفسیاتی تجزیہ۔ معیشت پر نفسیات کے اثرات۔ انفرادی نفسیات پر اجتماعی نفسیات کااثر۔ نفس پر شیطانی […]