فہرست
ناآسودگی کاتعارف:
ناآسودگی ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان اپنی خواہشات اور مطالبات کی فراہمی کے معاملہ میں بےاطمینانی یا بے تسکینی کا شکارہو۔وہ یہ سمجھے کہ جو کچھ اسے میسر ہو پایا وہ ناکافی ہے۔یا یہ کہ اس کی ہمت اورکوشش کے مطابق نہیں مل پایا۔
ناآسودگی ایسی عمومی کیفیت ہے،جس میں محرومی اورکمیابی کا احساس ہرچیز سے متعلق ہو سکتا ہے۔یہ مال ودولت، جاہ ومنصب سے ہوسکتا ہے، یہ مقام ومرتبہ، عزت وشہرت کے حصول سے ہو سکتاہے، یہ جنسی خواہشات، اور ملذات سے بھی ہوسکتا ہے۔
ناآسودگی کےاثرات
جب ایسی ہمہ گیر قسم کی کیفیت انسان کے دل ودماغ اور أعصاب پر سوار ہوجائے تو توقع کی جاسکتی ہےکہ وہ کیسے ہمہ وقت قسم کے سوچ وبچار، جمع وتفریق، اندیشوں اور وسوسوں میں مبتلاء رہے گا۔
ٹینشن اور ڈپریشن
نصیب یا مقدروہ امر ہےجو انسان کے بس اوربساط سے باہر ہے۔اسے نہایت محدود قدرت اور اختیارحاصل ہے،لیکن اس کی امیدیں اور آرزوئیں لامحدود ہیں۔وہ اپنے محدود اختیار کےساتھ لامحدود آرزؤں کے محلات کو حقیقت کا رنگ دینا چاہتاہے۔جو پوری طرح ممکن نہ ہونے کی وجہ سے اسے بےچینی اور بے آرامی میں مبتلاء کرتا ہے۔وہ ان کو پایہءتکمیل تک پہنچانے کے لئے ہر وقت حساب وکتاب ،اندازےوتخمینے لگانے میں جٹا رہتا ہے۔جو اسے نڈھال کر دیتے ہیں۔ اس کے دل ودماغ پر اور أعصاب پر ایک پیہم دباؤ کا باعث بنے رہتے ہیں۔
گلے شکوے اور تنقیدی ذہنیت
خداتعالی کی حکمت اورتقدیر اوردنیا میں اس کے جامع پلان کے مطابق سب کا نصیب یکساں نہیں، یہاں اونچ نیچ ہے،کمی زیادتی ہے۔اور اسی پر نظام کائنات چل رہا ہے۔اسی بنا پرلوگ ضرورتوں میں دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں۔اور ایک دوسرے کے تعاون سے اپنی تمدنی زندگی کے ارتقائی تقاضوں کو بجا لاتے ہیں۔لیکن اس نظام فطرت کے بہاؤ کے الٹ چلنے والا دوسروں کے ساتھ اپنی پیمائشوں میں لگا رہتا ہے۔وہ اپنے فیتے سے دوسروں کی کامیابی کامرانی کو اپنی محرومی وناکامی سے ناپنے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔جس کے نتیجہ میں اس کے مزاج میں گلے شکوے، توہمات اورشکایتیں پنپنے لگتی ہیں۔
فرسٹریشن اورعدوانہ مزاج
اور کچھ بڑھ کر یہی رویے چڑچڑاپن،حسد،کینہ اور بغض کی منفی شکلیں اختیارکرجاتے ہیں۔جس سے نفرت اور عداوت کی آگ سلگنے لگتی ہے۔اور بات فتنہ فساداور جنگ وجدال تک پہنچ جاتی ہے۔ اپنی اپنی واقعی ضرورتوں کی حد تک سوچنا اور اس کےلئے جدوجہد کرنا اور بات ہے اور اپنے آپ کو پیمائشی مغالطوں سےدوسروں سے ناپا ناپی کرنا قطعادوسری چیز ہے۔
ناآسودگی کی وجوہات
تغیر پسندفطرت
انسان کی اصل نیچرناآسودگی کی ہی ہے۔اس کے اندرہمیشہ بلند سے بلند تر ہوتے رہنے کی طلب ابلتی رہتی ہے اور وہ اونچی سے اونچی بلندی تک پہنچ کر بھی رکنا نہیں چاہتی، اس کی نظریں ہمیشہ اوپر ہی کی طرف لگی رہتی ہیں ۔گویا کہ ایک ارتقائی تقاضہ ہے جو اس کی فطرت میں سمو دیا گیا ہے۔
ارتقاء پسند فطرت
مولاناعبد الباری ندوی کے مطابق انسانیت مجسم نامحدودیت طلبی کا نام ہے۔ یعنی دیکھنے میں تو جیسا کہ کچھ سائنسدانوں نے تعریف نے اس کی یہ تعریف بھی کی ہے کہ وہ بے شک دو ٹانگوں والا ایک جانور ہی ہے ۔ پھر بھی کھانے پینے ، رہنے سہنے، جنے جنانے وغیرہ کی خالص حیوانی حاجتوں اور ضرورتوں تک میں دوسرے جانوروں کے برعکس وہ کسی حد وانتہاء پر ٹھہرنا نہیں جانتا ۔ایجادات ومصنوعات کی منڈیاں، صناعت ،کاشتکاری،سواری ، تعمیر وتخریب کے نت نئے طریقے اور شکلیں ،غرض تمام امور میں دیگر حیوانات کے مقابلہ میں انسانی فطرت اور اس کی امتیازی شان یہی پاؤ گے کہ تنوع وترقی کی کسی حد پر سکون وقرار یا چین اور ٹھہراؤ کا نام نہیں لیتاہے۔
سکون ناآشنا فطرت
مولانا ابوالحسن ندوی کے مطابق انسانی فطرت ہمیشہ آگے کی طرف دیکھتی ہے اور ہر نئی چیز کی خواہش مند ہوتی ہے۔اس کی سیری کسی حال میں بھی نہیں ہوتی۔ عزت وسربلندی، قوت وطاقت اور تجدید واحیاء کی محبت اس کی رگ وریشے میں ہے، وہ ہر آن ایک نئی منزل کی تلاش میں اور نئی ترقی کی تمنا میں نظر آتی ہے ایک نہ تھکنے والی آرزو اور یاس سےنا آشنا امید وحوصلہ مندی اس کے خمیر کا حصہ ہے۔
علاج
نفس انسانی امر ربی ہے
جب ہم نے یہ جان لیا کہ انسان کی فطرت کاخمیرناآسودگی اور نامحدودیت طلبی(desire for infinity)سے اٹھایا گیا ہے، کیونکہ وہ ایک لامحدود باکمال ہستی کی تخلیق ہے۔اور تخلیق میں خالق کی خودستائشی کا ظہور ہوتا ہے۔اسی کے کمالات اور خواص تفاوت کے ساتھ مختلف شکلوں اور صورتوںمیں ظہور پذیر ہوتے جاتے ہیں۔اسی لئے تو اللہ تعالی نے نفس کے بارے میں ہمیں بتایا ہے کہ قل الروح من أمر ربي مطلب روح میری جانب سے خاص امر کا القاء ہے۔اور شائد یہی وجہ تھی کہ فاطر کائنات نے انسان کو دھرتی پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا، اور اسے محدود پیمانہ پر خدائی اختیارات تفویض کئے ، تاکہ وہ دنیا کی تعمیر وتسخیر اور اس کی ترقی وآبادی کے فرائض سرانجام دے۔
ازالہ کا طریقہ(To Remove)
اب یہ تو ممکن نہیں کہ انسان کی ناآسودہ نیچر کو ختم یاتبدیل کرنے کی کوشش کی جائے، کیونکہ یہ فطرت سے جنگ ہو گی۔اور فطرت سے جنگ کے نتائج کبھی بھی مفید برآمد نہیں ہوئے۔اسی لئے ہمیں تجرد پسند احبار ورھبان، اور رہبانیت پسند جوگیوں کی جو مثالیں ملتی ہیں وہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ طریقہء اصلاح بالکل متوازن اور کامیاب نہیں۔
امالہ کا طریقہ(To Give Direction)
کامیاب طریقہ اصلاح یہ ہے کہ انسان کی اس ناآسودگی اور غیرمحدودیت طلبی کی خواہش اور نیچر کا رخ ایسی ذات کی جانب پھیر دیا جائے جو خود غیر محدود اور لازوال ہے۔خدا تعالی کی ذات اس کی محبت ورضاء اس کے اوصاف وکمالات میں محویت ہر انسان کے لئے وہ معراج بن سکتے ہیں ،وہ نصب العین بن سکتے ہیں جو اس کی بوقلموں فطرت کی تسکین اور تشفی کا باعث ہوں گے۔
اللہ تعالی کی ذات لامحدود اور لازوال
اللہ تعالی اپنے بارے میں فرماتے ہیں كل يوم هو في شأن کہ اللہ تعالی ہر آن ایک نئی شان میں جلوہ نما ہوتے ہیں۔اسی طرح ارشاد باری کا مفہوم ہے کہ اگر سات سمندر کا پانی سیاہی بن جائے اور (دنیا بھر کے درخت قلم بن کر) اللہ تعالی کی خوبیوں اور کمالات ضبط تحریر میں لانے لگیں،، تو سیاہی ختم ہوجائے(درختوں کی قلمیں گھس جائیں) لیکن اللہ تعالی کی خوبیوں اور کمالات کا احاطہ نا کر سکیں۔
لامحدود آرزوکی لامحدود ذات سے وابستگی
اس زندگی میں لامحدود کمالات رکھنے والی ذات اپنے ان ہی لامحدود کمالات کو ظاہر کرتی رہے گی۔ انسانی احساسات اپنے گرد وپیش ، اندر وباہر، ہر لمحہ ہر لحظہ ایسی نت نئی تجلیات کو مسلسل بغیر کسی خلل کے پاتے چلے جائیں گے جن کی نہ کوئی حد ہو گی نا انتہا، اور یوں لامحدود مطالبات والی فطرت کو لامحدود مطلوبات سے لذت گیر ہونے کا موقعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ابد الآباد تک ملتا جائے گا۔ اس وقت تک جس کا کوئی اختتامی نقطہ نہیں ہے اور یوں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انسان کی ناآسودہ حال جدت پسند نیچر نو بہ نو شکلوں میں اپنے اس جذبے کی تسکین وتشفی کا سامان پاتی چلی جائے گی۔
واحد طریقہءعلاج
اس طریقہء علاج کے سوا ناآسودگی کا کوئی طریقہ ممکن نہیں ہے۔کیونکہ اس کا سرمنشا خدا کی ذات سے غفلت ہے ۔اس کے پلان اور حکمت سے گریز ہے۔ایک عالیشان محل بھی ٹوائلٹ کے بغیر نامکمل ہوتا ہے، اگرچہ اپنی حقیقت اور حیثیت میں وہ ایک گندگی اور نجاست کی جگہ ہےلیکن جو شخص اس محل پر مجموعی حیثیت سے نظر ڈالے گا اسے وہ گندگی کی جگہ بھی موزوں اور مناسب محسوس ہوگی۔
زندگی کے متعلق ناقص ادراک
بالکل ایسے ہی زندگی اور اس کی حقیقتوں کو ہم کوتاہ نظری سے اور نامکمل طور پر جج کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے اپنے لئے ہی مسائل اور مصائب کا غیر ضروری انبار کھڑا کر لیتے ہیں۔یہاں کمی زیادتی، اونچ نیچ کو دیکھ کر ہم گلے شکوے اور تنقید وتخریب، ظلم وزیادتی ، عداوت اور فساد کے رویے اختیار کر لیتے ہیں۔حالانکہ اسی اونچ نیچ کو اس تناظر سے دیکھیں کہ یہ تفاوت لوگوں کی بشری وتمدنی ضروریات کی تکمیل کا ساماں مہیا کرتا ہے۔جس میں پیسہ والا اجرت دے کر کاریگر اور ماہر فن سے اپنا کام نکلوا لیتاہے۔اور جس کے پاس پیسہ نہیں وہ اپنے ہنر کی بدولت پیسہ کمانے کی سبیل پالیتا ہے۔
عدل کا تقاضہ
پھر یہ بھی ایک بدیھی امر(phenomenon) ہےکہ لوگوں کی استعداد ،صلاحیتیں اور قوتیں بھی جدا جدا ہوتی ہیں۔جن کے باعث کسی کے لئے ایک نعمت وآسائش اگر معقول معلوم ہوتی ہے تو دوسرے شخص کے لئے وہی راحت فتنہ وآزمائش کا ساماں بن جاتی ہے۔کیونکہ ہر ایک کا ظرف اور وسعت ، برداشت اور استقامت دوسروں سے متفاوت ہے۔اوراس فرق کا کوئی بھی سلیم العقل شخص انکار بھی نہیں کرتا۔
قناعت پسندی
اس لئے اپنی تسکین اور تسلی اسی عقیدہ میں پنہاں ہے کہ ہمیں جو ملا، جس قدر ملا وہ محض ہماری لیاقت یا کوشش کے بل بوتے پر نہیں بلکہ خدائے حکیم وعلیم کی تقدیر اور نصیب کے مطابق ملا ۔اور یہی ہمارے لئے بہتر تھا، اگرچہ اس کا کلی ادراک ہمارے لئے ممکن نہیں۔
کم تر سے تقابل
پھرخدا کی طرف سے انسان کو جو انگنت نعمتیں ملی ہیں وه ایک اتهاه سمندر کی مانند ہیں اور جو کچھ نہیں ملا وہ اس کے مقابلے میں ایک قطره آب اورذرہءخاک سے بهی کم ہے۔اس لئے شکر وامتنان کا إحساس پیدا کیاجائے۔اور اپنے سے اعلی کو دیکھنے کی بجائے اپنے سے کم تر کو دیکھا جائے۔
بلندتر مقصد کا تعین
اپنے لئے بلند تر ہدف کا چناؤ کریں گے تو چھوٹی چھوٹی ناکامیاں اور محرومیاں ہیچ محسوس ہوں گی۔دنیوی فوائد بالکل عارضی اور ناپائدار ہیں جو صرف قبر تک ساتھ دیتے ہیں۔انسان جو کچھ فوائد وآسائشیں حاصل کر پاتا ہے اس کا بڑا حصہ تو قریبی رشتے داروں کو ملتا ہے اور جو کچھ خود کو ملتا ہے وہ بھی چند روزہ ہوتاہے۔تو ان عارضی فائدوں اور نقصانات کی بنیاد پر اپنی زندگی کو اجیرن بنانا کیا درست رویہ ہو سکتا ہے؟
وصال محبوب
منبعِ کمالات ذات ،اللہ تعالی سے ملاقات، اس کی رضاء، اس کی یاد اور محبت میں سرشار ہو کر ہردم اس سے ملنے کی خواہش کے جذبہ کے تحت زندگی بسرکرنا ایسا بلند تر مقصد ہےجس کے سامنے سارے مقاصد ثانوی ہیں، ساری خوشیاں ضمنی ہیں، ساری کامیابیاں اور کامرانیاں چھوٹی ہیں۔محبوب سے وصال کو اپنی ناآسودگی کا نکتہء کمال بنا کر ہم ایک خوشگواراور صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔
خلاصہ
انسان کی لامحدود طلب فطرت کے لئے لامحدود اور لازوال سرچشمہءحیات کی فراہمی ہی ناآسودگی کاواحد علاج اور تدبیر ہے۔بندہ کی چین ناآشنا آرزو کو سیر فی الذات کے نت نئے، بوقلموں أحوال ومقامات میں محو کر دو۔اسی سے دنیا کی حسنہ بھی حاصل ہوگی اور عاقبت کی بھی۔
مزید پڑھئے: پژمردگی کے اسباب اور علاج۔نشہ سے نجات کا اسلامی طریقہءعلاج۔
[…] ناآسودگی اثرات،وجوہات اورعلاجNA-ASOODGI;ASRAAT, WJOOHAT OR ELAJ […]