فہرست
پژمردگی کی کیفیت:
پژمردگی دراصل خوف،اندیشہ اور احساس لاچارگی کی ایسی ملی جلی کیفیت کا نام ہے ، جس میں انسان کی فعالیت اورکارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔اس حالت میں وہ اپنی چستی، مستعدی اور جوش وخروش کھو دیتا ہے۔ اور مسلسل اس احساس کے زیرِ بار رہتا ہےکہ اس کے ساتھ کچھ غیرمعمولی بات ہے، یا یہ کہ اس کی دل کی دھڑکن کسی بھی وقت بند ہو جائے گی۔حالانکہ بظاہر اس کا دل نارمل ہوتاہے۔
علامات اور اثرات
پژمردگی اور افسردگی کی کیفیت انسان کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر سے چاٹ جاتی ہے، اور اس کی خوشیوں کو نگل جاتی ہے۔اس حالت میں چہرہ اور جسم پر مرجھاؤ کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔نیند اور آرام کم ہو جاتاہے، دل اچاٹ ہو جاتا ہے۔تمام معاملات بالخصوص لطف اندوزی والے امور سے اس کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔سستی،تھکاوٹ اور جرم کا احساس پیدا ہونے لگتاہے۔کھانے پینے اورجنسی خواہش میں کمی یا تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔
تحلیل اور تجزیہ
ہماری تمام تر نقل وحرکت، جدوجہد،اعمال وخدمات ،تمام عملی نشاط آفرینیاں اور فکری طرفہ طرازیاں اپنے وجود میں چند خیالات ، احساسات ، جبلتوں اور میلانات کی محتاج ہوتی ہیں ۔ان جبلتوں پر قوت عقلیہ حاکم ہوتی ہے جواپنی حکمت وفراست کے مطابق مختلف امکانات اور احتمالات میں سے ترجیحات قائم کرتی ہے،اور پھر ان کے مطابق عزم وارادہ کو افعال کی بجا آوری پر پختہ بناتی ہے۔
لیکن کیا عقل پر بھی کوئی قوت حاکم ہے جس سے وہ غذاء حاصل کرتی ہو؟ یقینا ایسی ماورائی قوت موجود ہے۔جو عقل کے لئے تحریک وتوانائی کے سرچشمہءکا کام دیتی ہے۔اس سے اھتداء پا کر عقل اپنی نقل وحرکت میں فعال طریقہ سے کارفرما ہوتی ہے۔یہ قوت انسان کاصحیح ومسلم عقیدہ اورایمان ویقین ہے۔
شخصیت میں پژمردگی، افسردگی اور اضمحلال تب پیدا ہوتا ہے جب عقل کی ڈور اس کے سرچشمہء حیات یعنی جامع صفات وکمالات ذات خدا وند باری تعالی پر ایمان سے کٹ جاتی ہے۔ اور اس کی مثال اس کٹی پتنگ جیسی ہوتی ہے، جس کا ناطہ اپنے مالک سے ٹوٹ چکا ہوتا ہے، پھر وہ لوٹنے والوں کے انبوہ کے رحم وکرم پہ ہوتی ہے۔خدا تعالی پر ایمان اور توکل اس کے لئے ہر مشکل میں امید کی کرن ثابت ہوتا ہے۔اس کے سہارے وہ بڑی سے بڑی مصیبت کا استقامت سے سامنا کرنے پر تیار ہوجاتا ہے۔اور اگر اسے یہ پشت پناہی نصیب نا رہے تو اضطراب، مرجھاؤ اور مایوسی ہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔
علاج وتدابیر
مولاناحنیف ندوی کے مطابق: ایمان اورعقیدہ نہ خشک منطقی اذعان کا نام ہے اور نہ اسے کسی بھی صورت میں محض تحکم ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یہ فعال اور حد درجہ انقلابی عنصر ہے جس کو مان لینے کے بعد عمل وسیرت کا نقشہ بالکل بدل جاتا ہے۔یہ ایک قوت کا نام ہے ایک محرک اور زندہ عامل سے تعبیر ہے ۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ آپ جس طرح کے عقائد کو اپنے فکر وذہن کا جزو بنائیں گے، آپ کی زندگی اسی انداز کی غماز ہو گی۔ کیونکہ عقیدہ کے معنی ہی یہ ہیں کہ آپ نے اپنے لئے پسند اور ناپسند کے کچھ پیمانے مقرر کر لئے ہیں اور زندگی سےمتعلق کسی واضح تصور کو حرز جان بنا لیا ہے ،، اگر یہ عقیدہ زندگی کی مشکلات میں آپ کے لئے سپر ثابت نہیں ہوتا تو اس کو عقیدہ وایمان نہیں کہہ سکتے ۔ یہ ایک خیال ہو سکتا ہے اس کو ذہنی عیاشی بھی کہہ سکتے ہیں اور کسی اور نام سے بھی اس کو پکارا جا سکتا ہے ۔
معروف اسکالر مولانا عبیدا للہ سندھی کے مطابق: انسان کا میں، یا انا اسے نفس کہہ لیجئے یا روح کا نام دیجئے ،، ایمان اور احسان انسان کے اس مَیں، میں ایک ہیجان پیدا کرتا ہے ، اسے ایک ولولہ دیتا ہے، اس میں حرکت پیدا کرتا ہے، کہ وہ سوچے، کچھ چاہے اور اس کے لئے مصروف عمل ہو ۔ یہ ایک برقی رو ہے جو انسان کے اندر دوڑ جاتی ہے۔ دھرم اور شریعت، پوجا پاٹ اور نماز روزے کا نام تصوف نہیں ،،، تصوف زندگی میں کوئی خاص راہ عمل متعین نہیں کرتا بلکہ راہ عمل پر ہمت اور استقامت سے چلانے والا جذبہ ہے۔
بقول شوان: جب انسان کا تعلق اللہ تعالی اور اس کے منشا وارادہ ورضاء سے ہو اس کو منفعل اور مطلق سرافگندہ اور خود سپردگی کا مظہر اتم ہونا چاہئے ۔اور جب اس کا تعلق کائنات ، انسان اور معاشر ہ سے ہو اس کو فعال، خلاق ،مجاہد وسرگرمِ عمل ہونا چاہئے۔”بندہء مومن کی یہی صحیح تعریف ہے ،، اللہ کے مقابلہ میں یہ انتہا درجہ کا متواضع اور تذلل واطاعت کا پیکر ہے ۔ کائنات اور بندوں کے مقابلہ میں اس کا کردار سراسر تخلیقی ہے جس میں انا کا شعور وادراک بھی داخل ہے اور ان کے اندر مضمر صلاحیتوں کا اظہار بھی ہے۔
مولانا حنیف ندوی کے بقول: ایمان کے لئے حرکت،زندگی،تخلیقی اور فعال ہونا ضروری ہے، اور عمل کے لئے یہ ضروری ہے کہ یہ ایمان کے داخلی تقاضوں سے تغذیہ حاصل کرے اور اسی کے بل پر آگے بڑہے، پروان چڑہے اور تہذیب وتمدن کے نئے نئے دبستان سجائے ، کیونکہ اگر عمل کے محرکات صحت مند نہیں ہیں اس کی سمت متعین نہیں ہے ، جڑیں مضبوط نہیں ہیں اور رخ تہذیبی وعمرانی خصوصیات کا حامل نہیں ہے تو یہ ایک نوع کی حرکت اور جدوجہد تو ضرور ہے قرآن کی اصطلاحِ عمل یا عمل صالح نہیں ہے جسے قرآن نے اس حکیمانہ انداز میں بیان کیا ہے:الم تر كيف ضرب الله مثلا كلمة طيبة كشجرة طيبة اصلها ثابت وفرعها فى السماء تؤتى أكلها كل حين بإذن ربها.تؤتى أكلها كل حين بإذن ربها. ترجمہ:کیا آپ نے جانا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہءطیبہ(توحید و ایمان) کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے کہ وہ ایک پاکیزہ درخت کے مشابہ ہے جس کی جڑ(زمین میں) خوب گڑی ہوئی ہو اس کی شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل پیدا کرتا رہتا ہے۔
درخت چونکہ زمین اور فضا دونوں سے غذا اور قوت حاصل کرتا ہے اس لیے فرمایا کہ زمین میں اس کی جڑیں اتری ہوئی ہونے کے سبب سے زمین سے بھی اسے پوری غذا مل رہی ہے اور شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی ہونے کی وجہ سے فضا بھی اس کی پرورش میں پورا پورا حصہ لے رہی ہے۔ کلمہ توحید سدا بہار ہے۔ یعنی اس درخت پر کبھی خزاں نہیں آتی بلکہ یہ اپنے رب کے حکم سے ہمیشہ پھل دتیا ہے۔یہی مومن کا معاملہ بھی ہے۔ عام درخت اگر مادی درخت ہے تو مومن شعوری درخت۔ مومن ایک طرف دنیا میں خدا کی تخلیقات اور اس کے نظام کو دیکھ کر عبرت اور نصیحت حاصل کرتا ہے۔ دوسری طرف ” اوپر ” سے اس کو مسلسل خدا کا فیضان پہنچتا رہتا ہے۔ وہ مخلوقات سے بھی اپنے لیے اضافہ ایمان کی خوراک حاصل کرتا ہے اور خالق سے بھی اس پر فیضان رحمت وبرکت برابر جاری رہتا ہے۔درخت ہر موسم میں اپنے پھل دیتا ہے۔ اسی طرح مومن ہر موقع پر وہ صحیح رویہ ظاہر کرتا ہے جو اسے ظاہر کرنا چاہئے۔ معاشی تنگی ہو یا معاشی فراخی، خوشی کا لمحہ ہو یا غم کا۔ شکایت کی بات ہو یا تعریف کی۔ زور اوری کی حالت ہو یا بےزوری کی، ہر موقع پر اس کی زبان اور اس کا کردار وہی رد عمل ظاہر کرتا ہے جو خدا کے سچے بندے کی حیثیت سے اسے ظاہر کرنا چاہئے۔
خلاصہ اور رائے
نفسیاتی پہلو سے غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ یقین اور محبت ہی وہ شہپر ہیں جن سے جہاد وجدوجہد کا شہباز پرواز کرتا ہے، مرغوبات نفسانی، عادات، مالوفات، مادی مصالح ومنافع، اغراض وخواہشات کی پستیوں سے وہی شخص بچ سکتا ہے جس میں کسی حقیقت کے یقین اور کسی مقصد کے عشق نے پارہ کی تقدیر سیمابی اوربجلیوں کی بیتابی پیدا کر دی ہو۔
اگر مسلم ملت کے اندر اعتقاد ویقین کی قوت پیدا ہوجائے تو دنیا میں حیرت انگیز انقلاب برپا ہوسکتاہے٬ ایسا انقلاب جو ایک نئی دنیا کو جنم دے گا٬ ایسی نئی دنیا جس میں اصل اہمیت اللہ کی رضا اور اجتماعی انسانی مفادات کو حاصل ہوگی۔اس میں حرص وہوس، مقابلہ بازی،دوسرے کو نیچا دکھانا، یا ہار کا غم اور شکست کی پژمردگی جیسی منفی صفات کی کوئی جگہ نہ ہو گی۔
جو انسان عقیدہ میں تصورِتوحید کا حامل ہوتا ہے اسے ذہنی انتشار اور پراگندگیء خیالات سے نجات مل جاتی ہے، پھر وہ حقائقِ اشیاء کے تصور میں بے سروپا قیاسی مفروضات سے نجات پا لیتا ہےاور ذہنی توانائیوں کو فضول ظنی نظریات کے بننے سے محفوظ کر لیتا ہے۔ ناصرف یہ بلکہ وہ سماجی تعلقات کو درست خطوط پر استوار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، اخلاقیات کی بالکل صحیح بنیادوں کو جان لیتا ہے اورمفروضات کے ان جھمیلوں سے جان چھڑا لیتا ہے جن میں پڑ کر ملحدانسان صدیوں تک بے سود تجربات کی نذر ہوتا رہا ہے۔اجتماعی وسیاسی نظریہ کی محکم اساس کو پہچان لیتا ہے، آمریت ،جمہوریت ،فاشزم ، سوشلزم،کمیونزم وغیرہ ظلم وفساد اور عدوان وطغیان پر مبنی نظامہائے حکومت وسلطنت کا تختہءمشق بننے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔الغرض اپنی زندگی کی تمام جہات ومناحی میں وہ ایک ایسے کل پرزہ کی طرح تصرّف کرتا ہے جو پازِیٹو، اینرجیٹک، پروڈکٹِو، انّوویٹو ہوتاہے ۔ ایسے لوگوں پر مشتمل امت کو نیچرل اور سوشل سائنسز میں تو ایک انقلاب برپا کر دینا چاہئے۔
مزید پڑھئے: رجائیت پسندی؛کیا، کیوں اورکیسے؟
زبردست
زبردست