ملکہء برطانیہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے شہزادہ چارلس برطانیہ کے نئے بادشاہ کی حیثیت سے تخت نشین ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں بادشاہ چارلس کی حلف برداری کی تقریب رونما ہوئی ہے۔جس میں انہوں نے بائبل ہاتھ میں اٹھائے ہوئے بائبل اور پارلیمنٹ سے اپنی وفاداری کاعہدکیا ہے۔
بادشاہ چارلس نے اپنےحلف میں جس طرح مذہب ،چرچ اور بائبل سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا ہے،اسی طرح پارلیمنٹ سے بھی وفاداری کا دم بھرا ہے۔اور اس طرح وہ بیک وقت مذہبی اورسیاسی قیادت کا استعارہ بن گئے ہیں۔ اس میں پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے لئے سیکھنے کے بہت سے پوائنٹس ہیں۔
بالخصوص وہ ممالک جو اپنی مذہبی اور نظریاتی شناخت رکھتے ہوئے عالمی سپر پاورز سے مرعوبیت کے نتیجہ میں بادشاہی نظام کو قدامت اور تہمت کی علامت ماننے لگے ہیں۔ اوریورپی نظریات کے زیراثر سیاست کو مذہب سے پاک رکھنے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں۔اور صرف اسی کو ترقی ،حقوق اور فلاح وبہبود کا ضامن مانتے ہیں۔ان کے لئے برطانیہ جیسی جدید، متمدن اوراعلی ترقی یافتہ ریاست؛ سوچ وبچار کے لئے ایک زندہ مثال ہے۔
فہرست
بادشاہ لوگوں کا مان اور نگہبان
سربراہ مملکت اپنے لوگوں اور زیرنگیں ریاستوں کی وحدت اور وفاق کا نشان ہوتا ہے۔وہ لوگوں کی عقیدتوں اور چاہتوں کا مان ہوتا ہے۔وہ اسے اپنی ضرورتوں اورحقوق کا نگہبان مانتے ہیں۔اس میں بادشاہ کی ذاتی وخاندانی وجاہت کے علاوہ اس کی لیاقت اور قابلیت کی حیثیت بنیادی ہوتی ہے۔اسی وجہ سے وہ رعایا کے ماتھے کا جھومر بن جاتا ہے۔
بادشاہ خدا کا پرتو
لیکن سربراہ مملکت اس وقت تقدس کارتبہ پالیتا ہے جب اس کی نسبت مذہبی حوالہ سے ہو ، اور اسے مذہبی ادارہ؛ چرچ یا مسجد کی مکمل سپورٹ حاصل ہوتو لوگوں کی اطاعت اورسرافگندگی قابل دید ہوجاتی ہے۔بادشاہ چارلس کی حلف برداری کے بعد پارلیمنٹ ممبران نے جس شوق اور جوش وخروش سے اس کے ہاتھ پر تجدید بیعت کی خواہش ظاہر کی ہے، اس سے لوگوں کے دلوں میں بادشاہ کے لئے احترام وتوقیر کے جذبات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اطاعت کیوں؟
قانون کی اطاعت اور پابندی کے حوالہ سے یہ بات موضوع بحث رہی ہے کہ کس بنیاد پر قانون کی پابندی اور فرمانبرداری کوضروری قرار دی جائے۔آزادی، مساوات اور انصاف کی مسلمہ اقدار کی موجودگی میں آخر کسی ہستی کو کس اساس پر ایسی بالادستی کا مستحق سمجھا جائے۔
غور کرنے سے اس کی ایک ہی معقول اور موزوں بنیاد سمجھ آتی ہے، اور وہ یہ کہ قانون کے علمبردارکو- چاہے وہ جج ہو یا بادشاہ -بالائے انسان کسی مقتدر مختار ہستی کا نمائندہ مانا جائے۔وہ قادر مطلق خدا تعالی کی ہستی ہے جو اپنی ذات میں سب لوگوں کاقبلہءسجود ہے، ان کی عبادت ونیاز کا منتہی مقصود ہے۔بادشاہ جب اس ہستی کا ظل اور پرتو مانا جائے تو لوگوں کی اس سے وفاداری اور فرمانبرداری یقینی ہوجاتی ہے۔
مذہبی اور سیاسی سیادت
ایک قابل عمل اور متوازن مذہب کے لئے ضروری ہے کہ اس میں نا تویہودیت کی طرح اتنا پھیلاؤ ہوکہ شاخ در شاخ تفصیلات میں زندگی کے ہر ہر جزئیہ کوٹچ کیا گیا ہوکہ اس کو وقت کے تقاضے سمیٹ ہی نہیں سکتے، اور نا اس میں عیسائیت کی طرح اتنااجمال اور اختصار ہو جس سے زندگی کا کوئی متعین نقشہ ہی نہ بن پائے۔
اس کے ساتھ یہ بھی کہ بائبل جن مذاہب کی نمائندہ ہے وہ قومی اور علاقائی مذاہب تھے ان سے توازن ،لچک اورجامعیت کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ بائبل کے ماننے والے زیادہ وقت نا گزرا کہ دین اور دنیا میں توازن کھو بیٹھے ۔اورنتیجتا دنیا کی باگ دوڑ بادشاہ کے ہاتھ میں چلی گئی اور مذہبی قیادت پوپ کے حصے میں سمٹ آئی۔بادشاہ اور پوپ کے مفادات اور تحفظات میں عوام کا استحصال ہوا۔
پھر جب عوام نے اپنے حق میں آواز بلند کی اور ایک طویل شورش اور کوشش کے بعد برطانیہ نے رومی سلطنت سے اور برطانوی چرچ نے رومن کیتھولک چرچ سے جدائی حاصل کرلی، تواب برطانیہ کے بادشاہ نے اپنے لیے پوپ کے اختیارات بھی حاصل کرلیے، تب سے لے کربرطانیہ کے بادشاہ کو سیاسی و مذہبی سربراہ کی حیثیت حاصل ہوگئی جو اب تک برقرار ہے۔
بادشاہ چارلس کا حلف ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی طویل تاریخ سے سبق سیکھا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ مملکت کو مذہب سے جدا کر نا کسی طرح مفید نہیں، بلکہ الٹا مذہب ہی ہے جو ریاست اور سربراہ مملکت دونوں کو مضبوط فاؤنڈیشن ، بقاء و استحکام فراہم کرتا ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ بادشاہ کے لئے عوام کی حمایت، وابستگی اور وفاداری کو یقینی بناتا ہے۔
اسلام میں مذہبی وسیاسی سیادت
اسلام اس نکتہءنظر کی تائید کرتا ہےاور سیکولر ازم کی نفی کرتا ہے ۔جس کے مطابق مذہب کو ریاست کے معاملات سے بےدخل مانا جاتا ہے۔ اسلام کا پولیٹیکل سسٹم مذہبی ونظریاتی بھی ہے اور شورائی وپارلیمانی بھی ۔اس کی رو سے سربراہ مملکت لوگوں کے متفقہ نمائندہ کے طورپر خداکی زمین پر اس کا خلیفہ ہوتا ہے۔اوراس طرح دین ودنیا ہر دو کے معاملات کی تدبیر وتولیت کرتا ہے۔
اسلام کی نظر میں سربراہ مملکت کے لئے اولین شرائط علم وحکمت، بصیرت وفراست اور سطوت اور شوکت ہیں۔ اس شخصی وجاہت کے ساتھ خاندانی وجاہت کی حیثیت اضافی ہے. اور وہ بھی ان معنوں میں کہ وہ خاندان یا برادری پبلک کے اعتمادکامرکز ہو،جیساکہ قرن اول میں قبیلہ ءقریش کو یہ خاندانی فضیلت حاصل تھی ،اورجماہیر ان کی قائدانہ خصوصیات پر گہرا اعتماد کرتے تھے۔اسی لئے ایک رائے کے مطابق اسی وجہ سے سربراہ مملکت کے لئے قریشی ہونا ایک شرط کے طور پر مانا جاتا تھا۔چنانچہ اگر یہی حمایت ،پذیرائی اورعصبیت کسی دوسرے خاندان کو مہیا ہوجائے تو اس کے انتخاب کی وجوہ ترجیح میں سے ایک یہ بات بھی شمار کی جائے گی۔
آپ یہ مضمون پڑھنا بھی پسند کریں گے: اسلامی فلاحی ریاست کی ترجیحات۔ لابنگ اسلام کی روشنی میں۔
سیاست میں مذہب کارڈ
بادشاہ چارلس کا حلف دوسری جانب اس پہلو پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ سیاست،مذہب کے عنصر سے پاک نہیں ہوسکتی ، بلکہ اس کی نیہ ہی مذہب اور فیتھ کے نظریہ پر اٹھائی جائے گی۔اسلام اس کی ناصرف تائید کرتا ہے، بلکہ نظریاتی سیاست کا پروگرام پیش کرتا ہے۔اس کے مطابق مذہبی سیاست دین کے مطالبات میں سے ایک بڑا اور اہم مطالبہ ہے۔جس کی اہمیت کو سیاست میں مذہب کارڈ کی تہمت عائد کر کے گہنایا نہیں جا سکتا۔اس کے مطابق مذہب کو سیاست سے جدا کرنا ایسا ہی ہے کہ خدا کو صرف نماز روزہ کا خدا مانا جائے معاشرت ،سماجیات اور معاملات میں خدا کی اطاعت کو خارج از بحث مان لیا جائے۔
چرچ اور پارلیمنٹ کی حدود
بادشاہ چارلس کے حلف میں بائبل سے وابستگی کے سائڈبائی سائڈ پارلیمنٹ سے وفاداری کا ذکر بھی ملتا ہے۔اس کے مطابق پارلیمنٹ جوایکٹ فائنل کرے گی ، بادشاہ ان کی عملداری اور نفاذ کو یقینی بنائے گا۔اسلام کے مطابق پارلیمنٹ انتظامی اور ادارہ جاتی معاملات کے معاملہ میں قانون سازی کا جواز رکھتی ہے۔ملکی وسائل اور ترجیحات کے مطابق اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سےوہ کچھ بھی لائحہ عمل تجویز کر سکتی ہے۔تاہم اس کی تمام تر قانون سازی دینی احکامات سے متصادم کسی صورت نہیں ہو سکتی۔
خلاصہ
بادشاہ چارلس کا حلف مذہب کی نظر میں ایک توازن اورجامعیت کاحامل ہے۔اس میں جہاں دین ودنیا کی رعایت ہے وہاں خدا کے حقوق کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق کا لحاظ بھی ہے۔چرچ اور پارلیمنٹ دونوں کے تحفظات کاپاس بھی ہے۔تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جہاں مفادات ٹکرانے لگیں اور پارلیمنٹ چرچ کے مقابل خم ٹھونک کر کھڑی ہوجائے تو اس وقت بادشاہ کی ترجیح کیا ہوگی؟ اسلام اس معاملہ میں بالکل کلیئر ہے وہ سربراہ مملکت کی اطاعت کو خدا کی اطاعت سے مشروط مانتا ہے۔اور جہاں سربراہ مملکت اس سے گریز کرنے لگےاور خدائی حکم سے کھلم کھلا بغاوت کا اظہار کرنے لگے تو وہ حق حکمرانی کھو دیتا ہے۔
Malka ki wafaat ke baad un ke betay shehzada charles Bartania ke naye badshah ki hesiyat se takhat nasheen ho chukay hain. haal hi mein badshah charles ki حلف bardari ki taqreeb runuma hui hai. jis mein unhon ne bible haath mein uthaye hue bible aur parliment se apni wafadaari کاعہدکیا hai .
badshah charles ne –apne halaf mein jis terhan mazhab, charch aur bible se apni wabastagi ka izhaar kya hai, isi terhan parliment se bhi وفاداری ka dam bhara hai. aur is terhan woh back waqt mazhabi avrsyasi قیادت ka isteara ban gaye hain. is mein pas mandah aur taraqqi Pazeer mumalik ke liye seekhnay ke bohat se points hain .
bilkhushoos woh mumalik jo apni mazhabi aur nazriati shanakht rakhtay hue aalmi super pavrz se مرعوبیت ke nateeja mein badshahi nizaam ko qadamat aur tohmat ki alamat maan-ne lagey hain. avryorpi nazriaat ke zirasr siyasat ko mazhab se pak rakhnay ka tahiya kiye baithy hain. aur sirf isi ko taraqqi, haqooq aur Falah vb_hbod ka zamin mantay hain. un ke liye Bartania jaisi jadeed, mutamaddin اوراعلی taraqqi Yafta ریاست؛ soch vbchar ke liye aik zindah misaal hai .
Badshah logon ka maan aur nigehbaan
sarbarah mumlikat –apne logon aur زیرنگیں reyaston ki wahdat aur wifaq ka nishaan hota hai. woh logon ki aqidton aur chahatoon ka maan hota hai. woh usay apni zaroraton اورحقوق ka nigehbaan mantay hain. is mein badshah ki zaati وخاندانی Wajahat ke ilawa is ki Liaqat aur qabliyat ki hesiyat bunyadi hoti hai. isi wajah se woh reaya ke maathey ka jhoomer ban jata hai .
Badshah kkhuda ka Partu
lekin sarbarah mumlikat is waqt taqaddus کارتبہ palita hai jab is ki nisbat mazhabi hawala se ho, aur usay mazhabi ادارہ؛ چرچ ya masjid ki mukammal support haasil hoto logon ki itaat اورسرافگندگی qabil deed hojati hai. badshah charles ki halaf برداری کے baad parliment mimbraan ne jis shoq aur josh wa-kharosh se is ke haath par tajdeed baet ki khwahish zahir ki hai, is se logon ke dilon mein badshah ke liye ehtram وتوقیر ke jazbaat ka andaza kya ja sakta hai .
itaat kyun ?
qanoon ki itaat aur pabandi ke hawala se yeh baat mauzo behas rahi hai ke kis bunyaad par qanoon ki pabandi aur farmabardari کوضروری qarar di jaye. azadi, masawaat aur insaaf ki Musalmah eqdaar ki mojoodgi mein aakhir kisi hasti ko kis asaas par aisi baladasti ka mustahiq samjha jaye .
ghhor karne se is ki aik hi maqool aur mozoon bunyaad samajh aati hai, aur woh yeh ke qanoon ke علمبردارکو- chahay woh judge ho ya badshah -بالائے insaan kisi muqtadir mukhtaar hasti ka نمائندہ mana jaye. woh Qadir mutlaq kkhuda taala ki hasti hai jo apni zaat mein sab logon کاقبلہءسجود hai, un ki ibadat ونیاز ka Muntahi maqsood hai. badshah jab is hasti ka zal aur Partu mana jaye to logon ki is se wafadaari aur farmabardari yakeeni hojati hai .
Mazhabi aur siyasi Siyadat
aik qabil amal aur mutawazan mazhab ke liye zaroori hai ke is mein na تویہودیت ki terhan itna phelao hok_h shaakh dar shaakh tafseelaat mein zindagi ke har har جزئیہ کوٹچ kya gaya hok_h is ko waqt ke taqazay samaitt hi nahi satke, aur na is mein عیسائیت ki terhan اتنااجمال aur ikhtisaar ho jis se zindagi ka koi mutayyan naqsha hi nah ban paye .
is ke sath yeh bhi ke bible jin mazahab ki numainda hai woh qaumi aur ilaqai mazahab thay un se tawazun, lachak اورجامعیت ki tawaqqa nahi ki ja sakti thi. yahi wajah thi ke bible ke maan-ne walay ziyada waqt na guzra ke deen aur duniya mein توازن kho baithy. اورنتیجتا duniya ki baag daud badshah ke haath mein chali gayi aur mazhabi qayadat pop ke hissay mein simat aayi. badshah aur pop ke mafadaat aur tahaffuzaat mein awam ka istehsal sun-hwa .
phir jab awam ne –apne haq mein aawaz buland ki aur aik taweel shorish aur koshish ke بعد Bartania ne Roomi saltanat se aur Bartanwi charch ne roman catholic charch se judai haasil karli, Tawaab Bartania ke badshah ne –apne liye pop ke ikhtiyarat bhi haasil karliye, tab se le کربرطانیہ ke badshah ko siyasi o mazhabi sarbarah ki hesiyat haasil hogayi jo ab tak barqarar hai.
badshah charles ka حلف ظاہر karta hai ke unhon ne apni taweel tareekh se sabaq seekha aur is nateeja par puhanche ke mumlikat ko mazhab se judda kar na kisi terhan mufeed nahi, balkay ulta mazhab hi hai jo riyasat aur sarbarah mumlikat dono ko mazboot foundation, baqaa o istehkaam faraham karta hai. aur is ke sath sath badshah ke liye awam ki himayat, wabastagi aur wafadaari ko yakeeni banata hai .
islam mein mazhabi وسیاسی سیادت
islam is نکتہءنظر ki taied karta hai aur secular azm ki nifi karta hai. jis ke mutabiq mazhab ko riyasat ke mamlaat se be dakhal mana jata hai. islam ka political system mazhabi ونظریاتی bhi hai aur شورائی وپارلیمانی bhi. is ki ro se sarbarah مملکت logon ke mutafiqa numainda ke tour par خداکی zameen par is ka khalifa hota hai. aur iss terhan deen vdnya har do ke mamlaat ki tadbeer وتولیت karta hai .
islam ki nazar mein sarbarah mumlikat ke liye awleen sharait ilm وحکمت, baseerat وفراست aur Satwat aur Shaukat hain. is shakhsi Wajahat ke sath khandani Wajahat ki hesiyat izafi hai. aur woh bhi un maeno mein ke woh khandan ya baradri public ke اعتمادکامرکز ho, jisak_h Qaran awwal mein qabeela ءقریش ko yeh khandani fazeelat haasil thi, اورجماہیر un ki qaidana خصوصیات par gehra aetmaad karte thay. isi liye aik raye ke mutabiq isi wajah se sarbarah mumlikat ke liye Qureshi hona aik shart ke tor par mana jata tha. chunancha agar yahi himayat, pazeerai اورعصبیت kisi dosray khandan ko muhayya hojaye to is ke intikhab ki wajoh tarjeeh mein se aik yeh baat bhi shumaar ki jaye gi .
Siyasat mein mazhab card
badshah charles ka حلف دوسری janib is pehlu par bhi roshni dalta hai ke siyasat, mazhab ke Ansar se pak nahi hosakti, balkay is ki nih hi mazhab aur faith ke nazriya par uthai jaye gi. islam is ki na sirf taied karta hai, balkay nazriati siyasat ka programme paish karta hai. is ke mutabiq mazhabi siyasat deen ke mutalibaat mein se aik bara aur ahem mutalba hai. jis ki ahmiyat ko siyasat mein mazhab card ki tohmat aed kar ke گہنایا nahi ja sakta. is ke mutabiq mazhab ko siyasat se judda karna aisa hi hai ke kkhuda ko sirf namaz روزہ ka kkhuda mana jaye muashrat, samajiat aur mamlaat mein kkhuda ki itaat ko kharij az behas maan liya jaye .
Charch aur parliment ki hudood
بادشاہ charles ke halaf mein bible se wabastagi ke سائڈبائی side parliment se wafadaari ka zikar bhi milta hai. is ke mutabiq parliment جوایکٹ final kere gi, badshah un ki amal dari aur nifaz ko yakeeni banaye ga. islam ke mutabiq parliment intizami aur idaara jati mamlaat ke maamla mein qanoon saazi ka juwaz rakhti hai. mulki wasail aur tarjeehat ke mutabiq apni zaroriat ko poora karne ke liye bahami mushawarat aur ittafaq raye se woh kuch bhi Laiha amal tajweez kar sakti hai. taham is ki tamam tar qanoon saazi deeni ehkamaat se mutsadam kisi soorat nahi ho sakti .
Khulasa
badshah charles ka حلف مذہب ki nazar mein aik tawazun اورجامعیت kahaml hai. is mein jahan deen vdnya ki riayat hai wahan kkhuda ke haqooq ke sath sath bundon ke haqooq ka lehaaz bhi hai. charch aur parliment dono ke tahaffuzaat kapas bhi hai. taham dekhnay ki baat yeh hai ke jahan mafadaat takaraane lagen aur parliment charch ke maqabil khham thonk kar khari hojaye to is waqt badshah ki tarjeeh kya hogi? islam is maamla mein bilkul clear hai woh sarbarah mumlikat ki itaat ko kkhuda ki itaat se mashroot maanta hai. aur jahan sarbarah mumlikat is se guraiz karne lagey aur khudai hukum se khullam khula baghaawat ka izhaar karne lagey to woh haq hukmarani kho deta hai .
Add Comment