انسان بنیادی طور پر ایک حیوان ہے۔جس کو تعلیم وتربیت انسانیت کا لبادہ اوڑھا دیتی ہے۔جس سے وہ زندگی کے ایک باشعور مظہر میں ڈھل جاتاہے۔اور شرافت وکرامت کی سیڑھی پر ایک درجہ بلند ہو کر دیگر حیوانات سے ممتاز ہو جاتا ہے۔
لیکن زندگی بعض اوقات انسان کو ایسے حالات سے دوچار کرتی ہے ، جن میں آفات وحوادث کے چند جھٹکے اور مصائب ومشکلات کے چند تھپیڑے انسان سے حکمت وتدبیر اور اعتدال وتوازن کا دامن چھڑا دیتے ہیں، اور صبر وتحمل کے تمام بندھن ٹوٹ جاتے ہیں اور وہ غیرمہذب اور غیر انسانی رویے ظاہر کرنے لگ جاتا ہے۔
یہی وہ وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔اور آدمیت کا لبادہ اتار پھینکتا ہے۔اور حیوانیت کے اپنے اصلی روپ میں آکر ایسے ایسے اقدامات کرجاتا ہے جس کے تصور سے ہی انسانیت شرما جاتی ہے۔اس کے یہ اقدامات ریپ وقتل ، اور لوٹ کھسوٹ کی تمام شکلوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔
Insan bunyadi tor par ak Hewan ha.jis ko taleem o tarbiyat insaniat ka libada udha deti ha.jis se wo zindgi ke aik bashaoor mazhar ma dhal jata ha.or shrafat o kramat ki seerhi pr ak darja buland ho kr deegar hawanat se mumtaz ho jata ha.lakin zindgi baz owqat isan ko aisay halat se dochar krti ha jin ma aafat o hwadis ke chand jhatkay or msayeb o mushkilat ke chand thapairay insan se hikmat o tadbir or aetidal o twazun ka daman chudda detay hain, sabar o tahamul ky tmam bandhan toot jaty hain or wo gair mohzazb or ghair insani rwayea zahir krny lag jata ha. Yehi wo waqt hota ha jab wo apny aapy sy bahir ho jata ha or aadmiyat ka libada utar phainkta ha. Or hewaniyat ke apny asal roop main aa kr aisy aisy iqdamat kr jata ha jis ke tsawur se hi insaniat sharma jati ha. Us ke ye iqdamat rape o qatal or loot o khsoot ki tmam shaklon pr mushtamil hoty hain.
فہرست
آفات وحادثات میں لوگوں کے رویے
مثال کے طورپر کہیں قدرتی آفات نمودار ہو جائیں۔ زلزلہ ،سیلاب یا آندھی طوفان کے جھکڑچل جائیں۔یا خوفناک اور خونی تصادم ہوجائیں، اورٹریفک حادثات کے علاوہ امن وعامہ کی خراب صورتحال کے باعث ملک میں خانہ جنگی یادنگے فساد ہونے لگ جائیں۔
باضمیر لوگ
تو ایسے المیہ کے مواقع پر لوگوں کے کئی اقسام کے رویے مشاہدے میں آتے ہیں۔کچھ تو ایسے بے لوث، عالی ظرف ، نڈر و بیباک اور خدمت ،احساس اور ایثارکے جذبات سے سرشار ہوتے ہیں کہ آگے بڑھ کر مصیبت زدہ افراداورخاندانوں کا سہارا بنتے ہیں۔ان کو مشکل کی اس گھڑی سے نکالنے کی تگ ودو کرتے ہیں۔
بےحس لوگ
جبکہ کچھ ایسے بزدل ,بےحس اورخودمطلب ہوتے ہیں جو دور کھڑے رہ کر صرف تماشہ دیکھتے رہتےہیں ۔ان کو یا تواپنے زور بازو پر بھروسہ نہیں ہوتا یا اپنی حکمت وتدبیر کا اعتبار نہیں ہوتا یا اپنے سوا کسی سے سروکار نہیں ہوتا۔سو ایسے کم ظرف اور بے ہمت لوگ کنارے لگے رہ جاتے ہیں۔
بدطینت لوگ
اوپر مذکوردو قسم کے لوگ پھر غنیمت ہیں ۔تیسری قسم کے لوگ ان دونوں سے بدترین ہوتے ہیں۔یہ وہ ہوتے ہیں جو حرص وہوس میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔خودغرضی ، مفادپرستی کے علمبردار ہوتے ہیں، بے رحمی اور کمینگی کی انتہاء کو چھوئے ہوتے ہیں۔انتہاء پسندانہ غیر انسانی رویے ایسے ہی لوگوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔
ایسےلوگ زلزلہ ،سیلاب یا آفت زدگی کی موت کا نشانہ بننےوالوں کی لاشوں اور بے گوروکفن مردوں کی جیبوں سے نقدی اور قیمتی اشیاء چراتے ہیں، مردہ خواتین کے جسم سے قیمتی زیورات اتارتے ہیں، اور اگر بن نہ پڑے تو اعضاء سمیت کاٹ کر لے جاتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جوکسی مصیبت یا حادثہ کے شکار پیٹرول ٹرالر کی مدد کی بجائےاس کے بہتے پیٹرول کو سمیٹنے میں لگے ہوتے ہیں۔الٹی ٹرین کی بگیوں میں بے ہوش یا زخمی سواریوں کی زندگیوں کو بچانے کی بجائے ان کے مال ومتاع کو نوچنے کھسوٹنے میں لگے جاتے ہیں۔اگر کسی بدقسمت کا کولڈ ڈرنکس کا ٹرک الٹ جائے تو اس بہتی گنگا سے ہاتھ دوھنے میں دیر نہیں لگاتے۔
بدعنوانی، بدمعاشی پر مبنی یہ رویے مذہب واخلاق کے علاوہ مسلمہ عقلی معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔اور ایسے غیر انسانی رویوں کی صفائی یا توجیہ ان سے بھی بڑھ کر بدتر چیز ہے۔
آپ یہ مضمون پڑھنا بھی پسند کریں گے: اسلامی فلاحی ریاست کی ترجیحات۔
afaat وحادثات mein logon ke ravayye
misaal ke tour par kahin qudrati afaat namodaar ho jayen. zalzala, selaab ya aandhi tufaan ke جھکڑچل jayen. ya khofnaak aur khooni tassadum ho jaien, avrtrifk hadsaat ke ilawa aman vaamh ki kharab sorat e haal ke baais malik mein khanah jungi یادنگے fasaad honay lag jayen .
bazmir log
to aisay almiya ke mawaqay par logon ke kayi aqsam ke ravayye mushahiday mein atay hain. kuch to aisay be los, aliiiii zarf, nidar o bebak aur khidmat, ehsas aur ایثارکے jazbaat se sarshar hotay hain ke agay barh kar museebat zada افراداورخاندانوں ka sahara bantay hain. un ko mushkil ki is ghari se nikaalte ki tug vdo karte hain .
be hiss log
jabkay kuch aisay buzdil, be hiss اورخودمطلب hotay hain jo daur kharray reh kar sirf tamasha dekhte rehtay hain. un ko ya twapne zor baazu par bharosa nahi hota ya apni hikmat وتدبیر ka aitbaar nahi hota ya –apne siwa kisi se sarokaar nahi hota. so aisay kam zarf aur be himmat log kinare lagey reh jatay hain .
bdtint log
oopar مذکوردو qisam ke log phir ghanemat hain. teesri qisam ke log un dono se bad tareen hotay hain. yeh woh hotay hain jo hiras وہوس mein doobe hue hotay hain. khudgarzi, mfadprsti ke almbrdar hotay hain, be rehmi aur کمینگی ki inteha ko chovay hotay hain. inteha pasandana ghair insani ravayye aisay hi logon se zahir hotay hain .
aisay log zalzala, selaab ya aafat zadgi ki mout ka nishana ban’nay walon ki laashon aur be گوروکفن mardon ki jaybou se naqdi aur qeemti ashya churatay hain, murda khawateen ke jism se qeemti zewraat utaartay hain, aur agar ban nah parre to aaza samait kaat kar le jatay hain .
yeh woh log hotay hain joksi museebat ya haadsa ke shikaar petrol tralr ki madad ki bajaye is ke bahtay petrol ko semathnay mein lagey hotay hain. ulti train ki bgyon mein be hosh ya zakhmi swaryon ki zindagion ko bachanay ki bajaye un ke maal ومتاع ko nochnay کھسوٹنے mein lagey jatay hain. agar kisi budqismat ka cold drinks ka truck ulat jaye to is behti ganga se haath doodhnay mein der nahi lagatay .
bud unwani, badmashi par mabni yeh ravayye mazhab واخلاق ke ilawa Musalmah aqli miyaar par bhi poora nahi utartay. aur aisay ghair insani rawaiyon ki safai ya tojeeh un se bhi barh kar badter cheez hai .
تعلیم اسلام
حقوق کا تعین
اسلام چونکہ ایک جامع اور فطری دین ہے ۔ایک مکمل ضابطہء حیات ہے۔وہ ہمیں شریعت کی صورت میں احکام وآداب کی ایسی تعلیمات فراہم کرتا ہےجس میں انفرادی حقوق وواجبات کے علاوہ اجتماعی زندگی کے فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین بھی کیا گیا ہے۔
حدود کا تعین
پیغمبر اسلام کے اسوہءحسنہ اور قرآن کریم کی روشن تلقینات میں ہمیں دین وعقیدہ کے ساتھ ساتھ جان ومال اور عزت وآبرواور قیمتی ذہنی توانایوں کے سرمایہ کی حفاظت کی تنبیہ بڑے زور وشور سے ملتی ہے۔اور ایسے کسی بھی ذاتی فائدہ کو جس سے دوسرے کا نقصان یا خسارہ ہوتا ہوجائز نہیں مانا گیا۔اسی طرح انفرادی منفعت کو اجتماعی مصلحت کے تابع رکھا گیا ہے۔حقوق وآداب کا تعین کر کے معاشرتی اور اقتصادی ناہمواریوں کے خاتمہ کا سدباب کیا گیا ہے۔
مسابقت کی بجائے اخوت ومحبت
بیشتر معاملات میں مسلمان وکافر کی بجائے انسانیت کو پیمانہء محبت واخوت قرار دیا گیا ہے۔اور ناصرف یہ بلکہ حقوق کے معاملہ میں نسوانیت اورآدمیت کے علاوہ حیوانیت کا امتیاز بھی روا نہیں رکھا گیا ۔اور جانوروں تک کے حقوق مقرر کئے گئے ہیں۔
طبیعی رجحانات کاپاس
لیکن چونکہ وہ ایک فطری اور ہمہ گیر دین ہے ۔اس لئے اس میں طبیعی رجحانات اور میلانات کی بالکل سرے سے نفی بھی نہیں کی گئی ۔چنانچہ تسلیم کیا گیا ہےکہ اس میں جنس اور بھوک کی خواہشات کے ساتھ ساتھ خودغرضی،مفادپرستی اور احساس برتری کی تمنائیں بھی پائی جاتی ہیں۔اس میں مال ومرتبہ کی آرزوئیں بھی ہیں۔زر،زن اور زمین کے تنازعے اور چپقلشیں بھی ہیں۔
ان قدرتی رجحانات ، جذبات اور میلانات کی مثال امام غزالی نے نہایت عمدہ طریقہ سے بیان کی ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ انسان میں خنزیر جیسی سفلیت اورہوسناکی ہے۔کتے جیسی نخوت اور خونخواری ہے۔انسان کی طبیعت میں موجود ان جانوروں کو شیطانی وسوسہ اندازی کی صورت میں اکسانے اور بھڑکانے کے لئے ایک وحشی بھی موجود ہے۔جو ان دونوں کو عقل وفطرت اور مذہب واخلاق کی تدبیر وتلقین کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرتا رہتا ہے۔
چنانچہ کبھی شیطان کی اکساہٹ ، بہکاوا اور ترغیب وتحریص کام کر جاتی ہے۔اور اس کو خارج سے بھی آفات وحوادث کی شکل میں سازگار حالات میسر ہوجاتے ہیں۔جس کے نتیجہ میں وہ ظلم وعدوان کا استعارہ بن جاتا ہے۔حرص و حسد اورتفوق وتفاخر کے نشہ میں برائی وبےحیائی کی تمام حدیں پار کر جاتا ہے۔
علاج وتدبیرات
جیسے ایک گھوڑا گاڑی میں جس میں دوچار گھوڑے جتے ہوئے ہوں اگر ایک ہوشیاراور مستعد کوچوان نا ہو جو اپنی لگام اور چابک کے ذریعہ ان کو کنٹرول کر رہا ہو تو اس گاڑی کی حالت یہ ہو گی کہ جو منہ زورگھوڑاجس جانب مڑے گا اس جانب گاڑی کو لے جانے کی کوشش کرے گا،اور اس طرح گاڑی کبھی بھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ پائے گی۔
ایسے ہی انسان کی فطرت میں بسی مختلف اور متنازع جبلتوں پر اگر عقل ودانش اور حکمت وتدبیر کا حاکم پہرے میں نا بٹھایا گیا ہو تو وہ جبلتیں اور جذبات اسے کبھی صراط مستقیم پر چلنے نا دیں گی۔
پھر محض عقل وشعور اور تعلیم وآگہی ان متفاوت محرکات کو قابو کرنے اور ان میں توازن قائم کرنےکے لئے ناکافی ہے۔جیساکہ بتا یا گیا ہے کہ ان جبلتوں کو اندر کے علاوہ باہر سے شیطانی کمک بھی حاصل ہوتی ہےاس لئے وہ بعض اوقات انسان کی عقل وتدبیر کو مغلوب کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔
اس لئے عقل وفطرت کو بھی ایک خارجی دستگیر اور معاون کی ضرورت ہوتی ہے جو نفس کی اصلاح وتربیت، بناؤ وسنواراور قابوکنٹرول کرنے میں ان کی مدد کرے۔اور یہ خارجی عامل وجدان اورایمان کے سوائے کچھ نہیں۔انسان کو جس قدر خدائے رحمان کی مدد ،نصرت اور توفیق حاصل ہوتی ہے، جس قدر اس سے تعلق اور رشتہ کی استواری حاصل ہوتی ہے اسی قدر اس کے ضمیر کو روشنی، قوت اور توانائی میسر ہوتی ہے ۔جس کے بل پر وہ اپنی دشمن اور مزاحم قوتوں کو رام کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
خلاصہ اورنتیجہءفکر
خلاصہ یہ کہ عقلی مسلمات، عمرانی ضروریات اور قانونی تعزیرات ان غیر مہذب اور غیر انسانی رویوں کی روک تھام کے لئے بالکل ناکافی ہیں۔کیونکہ یہ برائی کو روکنے کی محض انسدادی تدابیر ہیں۔ہمیں اس کے ساتھ اصلاحی تدابیر اٹھانے کی بھی ضرورت ہے۔
کسی ماہر معالج ، فقیہ نفس کی راہنمائی میں نفس کی تربیت وتہذیب کے لئے ریاضت ومجاہدے کرنے ہوں گے۔رذائل اخلاق اور منہ زور نفسانی تقاضہ جات کو مدہم ومانند کر کے محاسن اخلاق اور مکارم اوصاف پیدا کرنے ہوں گے۔ذکراذکار اور وظائف وعبادات کے ذریعہ سے ایسی روحانی ترقی اور بالیدگی حاصل کرنی ہوگی جو برے حالات میں بھی ہمیں کمزور، مغلوب الحال، پست ہمت، کوتاہ فہم اورحرص وہوس کا پجاری نا بننے دے۔ بلکہ صبر وتحمل، رواداری ،بردباری اور پاکبازی کے ساتھ ایسا عالی ظرف اور کوہ استقامت بنائے جس کے سامنے تمام سفلی ، نفسانی اور شیطانی ترغیبات وبہکاوےمضمحل اورشکست خوردہ ہوجائیں۔ اور ان کی جگہ محبت، اخوت اور شفقت ورفاقت کے جذبات غالب آجائیں اور ہم دوجسم یک جان کی مثال بن کرایک مثالی اسلامی اور حقیقی انسانی معاشرہ قائم کریں۔
ilaaj wa tadbirat
jaisay aik ghora gaari mein jis mein dochar ghoray jte hue hon agar aik ہوشیاراور mustaed kochwaan na ho jo apni lagaam aur chaabak ke zareya un ko control kar raha ho to is gaari ki haalat yeh ho gi ke jo mun زورگھوڑاجس janib muray ga is janib gaari ko le jane ki koshish kere ga, aur is terhan gaari kabhi bhi apni manzil par nahi pahonch paye gi .
aisay hi insaan ki fitrat mein basi mukhtalif aur mutanazia jblton par agar aqal ودانش aur hikmat وتدبیر ka haakim pehray mein na bithaya gaya ho to woh jbltin aur jazbaat usay kabhi Siraat mustaqeem par chalne na den gi .
phir mehez aqal وشعور aur taleem وآگہی un متفاوت muharikaat ko qaboo karne aur un mein tawazun qaim karne ke liye na kafi hai. jisak_h bta ya gaya hai ke un jblton ko andar ke ilawa bahar se shaytani kumak bhi haasil hoti hai is liye woh baaz auqaat insaan ki aqal وتدبیر ko maghloob karne mein kamyaab hojati hain .
is liye aqal وفطرة ko bhi aik kharji dastagir aur Muawin ki zaroorat hoti hai jo nafs ki islaah وتربیت, banaao وسنواراور قابوکنٹرول karne mein un ki madad kere. aur yeh kharji Amel wajdan اورایمان ke siwaye kuch nahi. insaan ko jis qader khuday-e Rehman ki madad, nusrat aur tofeq haasil hoti hai, jis qader is se talluq aur rishta ki ustowari haasil hoti hai isi qader is ke zameer ko roshni, qowat aur tawanai muyassar hoti hai. jis ke bil par woh apni dushman aur muzahim quwatoon ko raam karne mein kamyaab hota hai .
khulasa اورنتیجہءفکر
khulasa yeh ke aqli مسلمات, imrani zaroriat aur qanooni tazeerat un ghair mohazab aur ghair insani rawaiyon ki rokkk thaam ke liye bilkul na kafi hain. kyunkay yeh buraiee ko roknay ki mehez insidadi tadabeer hain. hamein is ke sath islahi tadabeer uthany ki bhi zaroorat hai .
kisi maahir mualij, fiqiya nafs ki rahnumaiye mein nafs ki tarbiyat وتہذیب ke liye riyazat ومجاہدے karne hon ge. رذائل ikhlaq aur mun zor nafsaani taqaza jaat ko madham ومانند kar ke mhasn ikhlaq aur mkarm Awsaf peda karne hon ge. ذکراذکار aur وظائف وعبادات ke zareya se aisi Rohani taraqqi aur baleedgi haasil karni hogi jo buray halaat mein bhi hamein kamzor, maghloob al haal, pust himmat, kotah feham اورحرص وہوس ka pujari na ban’nay day. balkay sabr vthml, rawadari, burdbaari aur pakbazi ke sath aisa aliiiii zarf aur koh istiqamat banaye jis ke samnay tamam safli, نفسانی aur shaytani trghibat وبہکاوے muzamahil اورشکست khorda ho jaien. aur un ki jagah mohabbat, akhuwat aur shafqat ورفاقت ke jazbaat ghalib ajayeen aur hum دوجسم yak jaan ki misaal ban krayk misali islami aur haqeeqi insani muashra qaim karen .
مزید پڑھئے: خودغرضی ایک نفسیاتی تجزیہ۔ معیشت پر نفسیات کے اثرات۔ انفرادی نفسیات پر اجتماعی نفسیات کااثر۔ نفس پر شیطانی اثرات۔ منفی معاشرتی رویے۔
[…] آفات وحادثات میں غیرانسانی رویے، غیرمہذب رویے Aafat o Hadisat… […]
[…] آفات وحادثات میں غیرانسانی رویے، غیرمہذب رویے Aafat o Hadisat… […]