اللہ تعالی نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ فطری طور پر سوشل لائف گزارنے کا عادی ہے۔ وہ اپنی محدود صلاحیتوں اور قلیل وسائل کی بنا پر دوسروں کے تعاون کا محتاج ہوتا ہے۔وہ انڈیپینڈنٹ نہیں ہوسکتا، اس کے اٹانومس ہونے کے احساس کو قدرت ہی مختلف موقعوں پر غلط ثابت کردیتی ہے ۔
چنانچہ لوکل لیول سے لے کر انٹرنیشنل لیول تک انسان اپنا انفرادی، سماجی ،اقتصادی اورسیاسی وجود قائم رکھنے میں دوسروں کی امداد کا محتاج رہتاہے۔صرف اقتصادی پہلو سے دیکھا جائے تو اسی سےعالمی مالیاتی اداروں، آئی ایم ایف اورملکی معیشت کے تعلقات اور باہمی تعاون اور امداد کی بنیاد پڑتی ہے۔
تاہم باہمی امداد کا یہ معاملہ صرف احتیاج کے اصول پر نہیں بلکہ بقائے باہمی کے اصول پر استوار ہوتا ہے۔اس معاملہ کو اگر تکبر، نخوت، بڑائی اوربرتری کا داغ لگ جائے۔ یا اس میں قومی، نسلی اور وطنی نسبتوں کی تنگ نظری بھی مل جائے جودوسرے کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے اور استحصال واستبداد روارکھنے کو سند جواز فراہم کرے۔تو اس صورت میں باہمی تعاون کا یہ رشتہ اپنی عزت اوروقار کی بحالی اور بقاء وسلامتی کی جنگ کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔
Allah taala ne insaan ko aisa banaya hai ke woh fitri tor par social life guzaarne ka aadi hai. woh apni mehdood salahiyaton aur qaleel wasail ki bana par doosron ke taawun ka mohtaaj hota hai. woh indepentend nahi ho sakta, is ke اٹانومس honay ke ehsas ko qudrat hi mukhtalif moqaon par ghalat saabit kardeti hai.
chunancha local level se le kar international level tak insaan apni infiradi, samaji, iqtisadi avrsyasi wujood qaim rakhnay mein doosron ki imdaad ka mohtaaj rhtahe. sirf iqtisadi pehlu se dekha jaye to isi se aalmi maliyati idaron, IMF avr mulki maeeshat ke taluqaat aur bahami taawun aur imdaad ki bunyaad padtee hai.
taham bahami imdaad ka yeh maamla sirf ehtiaaj ke usool par nahi balkay baqaye bahami ke usool par ustuwar hota hai. is maamla ko agar taqqabur, nakhwat, barayi اوربرتری ka daagh lag jaye. ya is mein qaumi, nasli aur watni nsbton ki tang nazri bhi mil jaye جودوسرے ki majboori se najaaiz faida uthany aur istehsal vastbdad روارکھنے ko sanad juwaz faraham kere. to is soorat mein bahami taawun ka yeh rishta apni izzat avroqar ki bahaali aur baqaa vslamti ki jung ki shakal ikhtiyar kar jata hai .
فہرست
ریاست کی بنیادی ضروریات
اسلام کے نکتہء نظر سے ایک ریاست کی بنیادی ضروریات، اورحکومت کی اولین ترجیحات میں سے سرفہرست آئین وقانون،امن وسلامتی، مستحکم معیشت، انصاف کی فراہمی اور تعلیم وتربیت ہے۔ حکومت کے مقتدر مرکزی ادارے مقننہ، منتظمہ اور عدلیہ انہی مفادات کی نگہبانی اپنے ذیلی محکمہ جات اور سیکرٹریٹس کے ذریعہ سے بجا لاتے ہیں۔
Riyasat ki bunyadi zaroriat
islam ke نکتہء nazar se aik riyasat ki bunyadi zaroriat, avrhkomt ki awleen tarjeehat mein se sare fehrist aeen وقانون, aman vslamti, mustahkam maeeshat, insaaf ki farahmi aur taleem وتربیت hai. hukoomat ke muqtadir markazi idaray mqnnh, muntazima aur adliya unhi mafadaat ki nigehbani –apne zeli mehakma jaat aur سیکرٹریٹس ke zareya se baja laatay hain.
آئین
آئین تو کسی بھی مملکت کی بنیادی اوراٹل ضرورت ہوتا ہے۔ اور اگر وہ ریاست نظریاتی ہے تو آئین کی حیثیت فاونڈیشن اسٹون کی ہو جاتی ہے۔ کسی نظریہ وعقیدہ کے بنا ریاست کی مثال ایک بےخانماں کشتی کی سی ہے جس کی کوئی منزل نا ہو۔ یہاں مقننہ کے ادارہ کا فریضہ ہے کہ وہ جمھور کے منشا ونظریہ کے مطابق انہیں آئین کی شکل میں ایک سپریم لاء فراہم کرے۔
استقرار
آئین اور نصب العین کے تعین کے بعد اور آئینی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ اولین ترجیح امن وامان اور لاء اینڈ آرڈرکا نفاذ ہے، کیونکہ اصول یہ ہے کہ جان کا بچانا (دفع مضرت)، نفع کے حصول (جلب منفعت) سے مقدم ہوتی ہے۔اور استحکام سے زیادہ ضروری بقاء ہے۔اس لئے اس ضرورت کی تکمیل کے لئے منتظمہ کا ادارہ اپنے ذیلی محکمہ جات جیسے فوج اور پولیس کو کام میں لاتا ہے۔
اقتصاد
امن وامان کے ساتھ ہی جو چیز جڑی ہوئی ہے وہ اقتصاد اور معاشی استحکام ہے۔جس پر ریاست کا دوام اور بقاءِ عوام موقوف ہے۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ حالت امن ہو یا حالت جنگ دونوں صورتوں میں کسی ملک کا سروائول اس کی ریڑھ کی ہڈی یعنی مضبوط اکانومی پر ہوتاہے۔
حکومت کی اولین ترجیحات
امن وامان اور معاشی استحکام کی انہی اہمیتوں کے پیش نظر قرآن کریم جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاء کا تذکرہ کرتا ہے تو اس میں انہی دونکات کو ہائی لائیٹ کرتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالی سے پہلے امن وسلامتی اور پھر معاشی مفلوک الحالی کی دوا چاہی۔
امن وامان
کیونکہ امن اور معیشت باہم ایک دوسرے سے منسلک ہیں دنیا میں جب بھی کسی ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی سچوئیشن دگرگوں ہوتی ہے تو اسٹاک مارکیٹ کریش کر جاتی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیش نظر بھی یہی تھا کہ جس نظریہ اور عقیدہ کی بنیاد پر وہ اللہ تعالی سے ایک ریاست کے طلب گار تھے اس کا خواب اس کے دفاع اور معیشت کی مضبوطی کے بغیر شرمندہء تعبیر نہیں ہوسکتا تھا۔
معاشی استحکام
کسی بھی ملک کا آئین ونظریہ اس کی معاشی حالت سے بری طرح متاثر ہوتا ہے۔جہاں جان کے لاے پڑ جائیں وہاں نظریات ٹھنڈے پڑجاتے ہیں۔اسی بات کو پیغمبر اسلام ﷺ نے ایک حدیث میں یوں ارشاد فرمایا تھا کہ معاشی مفلوک الحالی اور درماندگی انسان کے نظریہ کو تہ وبالا کر دیتی ہے،اس کے عقیدہ کی بنیاد کو ہلا دیتی ہے۔
اوریہی وجہ ہےکہ جب کوئی ملک معاشی ڈیفالٹر کی حد کو پہنچ جاتا ہے تو دیوالیہ پن کے آثارمہنگائی اور گرانی قدر سے تنگ آکر عوام نا اپنے آئین ونظریہ کا پاس کرتی ہے، نا قانون وامن امان کی صورتحال کا خیال کرتی ہے۔ان کے پیش نظر اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ سب سے بڑی ترجیح ہوتا ہے۔ایسے میں ان سے کسی بھی نظریاتی ، اخلاقی یا قانونی خلاف ورزی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اسلام کا اصول اخوت
اسلام تو ایسے مسائل کا واضح حل فراہم کرتا ہے۔وہ سب سے پہلے ان کا سلسلہء نسب ایک ماں باپ سے جوڑتا ہے، اوربلاتفریق مذہب، نسل اور وطن تمام انسانوں کو ایک اخوت اوربرادری کے رشتہ میں پرودیتا ہے۔ اور پھر اس رشتہ کی مضبوطی اور پیوستگی کی خاطر وہ انہیں ایک دوسرے کا ضرورت مند بناتا ہے۔اور یہ باور کراتا ہے کہ تنہائی ، خودغرضی اورخودمختاری کی اس کی زندگی میں کوئی جگہ نہیں۔
اسلام کانظریہءبقائے باہمی
اللہ تعالی نے صرف انسانوں کو مخصوص اور محدود صلاحیتوں سے ہی نہیں نوازا اس نے تمام کائنات میں مخصوص استعدادوں کو پیداکر کے تمام حیات اور کائنات کو ایک دوسرے کی ضرورت اور احتیاج کے بندھن میں باندھ دیا ہے۔جیسے مخصوص معدنیات کے ذخائر ہوں یا مخصوص زرعی پیداوار کے محصولات یہ مختلف ممالک اور خطوں میں متنوع طورپر پائے جاتے ہیں۔کہیں کوئلے کے ذخائر ہیں، کہیں سونے اور نمک کی کانیں ہیں ، اورکہیں سیب،انگور اور انار بے مثال ہیں۔
ٹھیک ایسے ہی جیسے انسانوں میں مختلف ہنر ، دستکاریاں اورپیشےپائے جاتے ہیں ایسے ہی کائنات اور اس کی معدنیات کا تنوع اس احتیاج کی طرف اشارہ کناں ہیں کہ ایک دوسرے سے استفادہ ضروری ہے۔اوریہ استفادہ بقائے باہمی اور اخوت کے جذبہ کے تحت ہے۔ نا کہ خودانحصاری ، خودمختاری کے غیر فطری جذبات وخیالات کے تحت۔
آپ اس سے متعلقہ یہ مضمون پڑھنا بھی پسند کریں گے: ملکی آزادی وخودمختاری۔ اسلام اور لابنگ۔ اسلامی فلاحی ریاست کی ترجیحات۔
islam ka usool akhuwat
islam to aisay masail ka wazeh hal faraham karta hai. woh sab se pehlay un ka سلسلہء nasb aik maa baap se jorta hai, اوربلاتفریق mazhab, nasal aur watan tamam insanon ko aik akhuwat اوربرادری ke rishta mein پرودیتا hai. aur phir is rishta ki mazbooti aur pewastagi ki khatir woh inhen aik dosray ka zaroorat mand banata hai. aur yeh bawar karata hai ke tanhai, khudgarzi اورخودمختاری ki is ki zindagi mein koi jagah nahi.
islam کانظریہءبقائے bahami
Allah taala ne sirf insanon ko makhsoos aur mehdood salahiyaton se hi nahi nawaza is ne tamam kaayenaat mein makhsoos استعدادوں ko pidakr ke tamam hayaat aur kaayenaat ko aik dosray ki zaroorat aur ehtiaaj ke bandhan mein bandh diya hai. jaisay makhsoos madniyaat ke zakhair hon ya makhsoos zarayi pedawar ke mehsoolat yeh mukhtalif mumalik aur khitton mein mtnoa tour par paye jatay hain. kahin koylay ke zakhair hain, kahin sonay aur namak ki kanin hain, اورکہیں saib, angoor aur aanar be misaal hain.
theek aisay hi jaisay insanon mein mukhtalif hunar, دستکاریاں اورپیشے paye jatay hain aisay hi kaayenaat aur is ki madniyaat ka tanawu is ehtiaaj ki taraf ishara kinaan hain ke aik dosray se istifada zaroori hai. avrih istifada baqaye bahami aur akhuwat ke jazba ke tehat hai. na ke khodanhsari, khudmukhtaari ke ghair fitri jazbaat وخیالات ke tehat.
اسلامی معاشیات کی خصوصیات
دخل وخرچ
قاضی ابویوسف نے کتاب الخراج کی تمہید میں ایک حدیث کو اسلامی معاشیات کی بنیادقرار دیا ہے جو بتاتی ہےکہ محشر کے دن انسان سے مالیات کے متعلق سوال ہوگا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں لگایا۔دولت کی پیدائش اور دولت کا استعمال یعنی دخل اور خرچ آڈٹ کا بہترین معیار ہیں۔
مطلب صرف اتنا کافی نہیں کہ دولت کو جائز طریقہ سے حاصل کیا جائے ، بلکہ یہ بھی ہے کہ اس پیداوار کو جائز محل اورمصرف میں استعمال بھی کیاجائے۔اسلام کے نکتہءنظر سے دولت کی زیادہ پیدائش سے بڑھ کر اہمیت انویسٹمنٹ اور دولت کی تقسیم وتصریف کی ہے۔اسلام اسی لئے کنجوسی اور ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا کہ اس میں دولت کا ارتکاز ہے۔
سرمایہ کی تخلیق
پھر اسلام سرمایہ کی تخلیق کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔بجائے اس کے کہ انسان کسی کی ملازمت کر کے دولت کے عوض اپنا ذہنی وجسمانی سرمایہ بیچ ڈالے- اگرچہ یہ بھی جائز ہے- لیکن اسلام اور قرآن کی نظر میں افسران بالا کے رعب وعتاب کا شکار بننے کی بجائے زور بازو سےزراعت، کھیتی باڑی، باغبانی،گلہ بانی اورکاریگری وتعمیرات اختیار کرنے کی زیادہ حوصلہ افزائی پائی جاتی ہے۔
توکل بر خدا
اللہ کے پیغمبر گلہ بانی کرتے تھے کہ اس میں معیشت کے معاملہ میں لوگوں پر انحصار کم سے کم ہے اور رب پر بھروسہ زیادہ سے زیادہ ہے، اور یہ سب سے افضل ہے۔پھر قرآن پیغمبروں کی مختلف صناعتوں ،کاریگریوں اور تجارت کا تذکرہ کرتا ہےجس میں دوطرفہ لین دین ہوتا ہےاوربالعموم کوئی دوسرے کا ماتحت نہیں ہوتا۔یہاں بھی خدا تعالی پر توکل اور انحصار زیادہ پایا جاتا ہے۔
یہاں ان لوگوں کے لئے لمحہءفکریہ ہے جو معاشی خوشحالی کی امید میں غیرملکی گرانٹ اور عالمی مالیاتی اداروں اور آئی ایم ایف کے تعاون وامداد کے جویاں رہتے ہیں اور ان پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔اور اس کے نتیجہ میں ان کی جائز وناجائز شرائط کو قبول کرتے ہیں۔اور بعض أوقات ملکی نظریہ اور سلامتی کو بھی گروی رکھوا دیتے ہیں۔
قرض اتارو ملک سنوارو کی مہم میں مزید سودی قرض لیتے ہیں، حاصل شدہ بھاری رقوم میں سود کی لعنت کے باعث اپنی نسلوں تک کو قرض کے بوجھ تلے ڈھو دیتے ہیں۔ ایسے بدطینت لوگ جب قرض کی بھاری رقوم وصول کرتے ہیں تو اس کا ایک بڑا حصہ ذاتی عیاشی ا ورخودغرضی کی نذر کر دیتے ہیں۔
آئی ایم ایف اور استحصال
مادیت، کفر اور الحاد پر مبنی بے خدا تہذیبوں کے یہ عالمی مالیاتی ادارے کفر کی نحوست کے علاوہ بے حسی، مفادپرستی اور نسلی وقومی برتری کے متعصبانہ غیرفطری جذبوں سے سرشار ہوتے ہیں۔خدا سے نظر ہٹانے کے بعد ان کو اپنی بقاء دوسروں کے استحصال میں دکھائی دیتی ہے۔
ایثار یا استحصال؟
خدا کے انکار اور انسان کی الوہیت اور خودمختاری کے نشہ میں مبتلا لوگوں کے بنائے یہ عالمی مالیاتی ادارے درحقیقت عالمی طاقتوں کےباطل نظریات کی بالادستی منوانے کا ذریعہ ہیں۔سیکولر اورلبرل سوچ کو وہ تمام ممالک کے آئین ومنشور کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔اور اسی خاطر وہ سخت اورمن پسند شرائط پر سودی قرضے کی امداد فراہم کرتے ہیں۔خدا سے نظر ہٹانے کے باعث سود اور استحصال کو اپنی بقاء اور سروایول کا سبب مانتے ہیں۔
imf aur istehsal
madiyat, kufar aur al-haad par mabni be kkhuda t_hzibon ke yeh aalmi maliyati idaray kufar ki nahosat ke ilawa be hisi, mfadprsti aur nasli vqomi bartari ke mutassbana ghirftri jazbun se sarshar hotay hain. kkhuda se nazar hataane ke baad un ko apni baqaa doosron ke istehsal mein dikhayi deti hai.
eesaar ya istehsal ?
kkhuda ke inkaar aur insaan ki al-wahiyat aur khudmukhtaari ke nasha mein mubtala logon ke banaye yeh aalmi maliyati idaray dar haqeeqat aalmi taqaton ke baatil nazriaat ki baladasti manwane ka zareya hain. secular اورلبرل soch ko woh tamam mumalik ke aeen ومنشور ke tor par dekhna chahtay hain. aur isi khatir woh sakht avrmn pasand sharait par soodi qarzay ki imdaad faraham karte hain. kkhuda se nazar hataane ke baais sood aur istehsal ko apni baqaa aur سروایول ka sabab mantay hain.
اسلام کا چونکہ اپنا منفردنظریہ اور عادلانہ جامع قانون ہے۔اس کے اپنے مقاصد اور مناہج ہیں اس بناء پر وہ اپنے ماننے والوں کو رزق ومعاش کے معاملہ میں اپنے پروردگار پر تکیہ کرنے کا حکم دیتاہے۔اور روزی کو خدا کی طرف سے مقرر کردہ نصیب قرار دیتاہے۔اورقرار دیتا ہے کہ کوئی کسی کا رزق چھین نہیں سکتا ، نا اپنے مقرر نصیب سے زیادہ پا سکتا ہے۔لہذا یہیں سےحرص وحسد،مقابلہ بازی اور استحصال کے جذبات وخیالات کا انسداد ہوجاتا ہے۔
قناعت اور انفاق
اپنے نصیب پر قناعت پسندی کے جذبہ کے تحت اور عالمی اخوت اوربرادری کی نسبت کے تحت اسلام اپنے ماننے والوں سے تقاضہ کرتا ہے کہ وہ صدقات اور خیرات کے ذریعہ دولت کے ارتکاز کا خاتمہ کریں اور ا س کے پھیلاؤ کو یقینی بنائیں کہ اسی میں برکت اورترقی ہے۔
اخوت اوررفاقت
اسلام دولت کے حصول کے ایسے کسی ذریعہ کو جائز نہیں مانتا جس میں دوسروں کا نقصان ہو یا اس کی رضامندی شامل حال نا ہو۔اس کے برعکس وہ دوسروں کی خیرخواہی ، ہمدردی اوربہتری کو تمام انسانیت کی بھلائی اوربہتری کا ضامن مانتا ہے۔اس کی نظرمیں سمندروں کی سیمائیں اور قوموں اور ملکوں کی شناختیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔اس کی نظرمیں سرحدوں کے امتیازات کی بجائے انسانوں کی اہمیت اولین ہے۔جو ایک دوسرے سے بھائی چارے اور بقائے باہمی کے أصول پر جڑے ہوئے ہیں۔
خلاصہ
اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ اسلام کے ورلڈ ویو کے مطابق ملک کی ایک خاص خارجہ پالیسی مرتب ہوتی ہے۔جو آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سےملکی معیشت کے تعامل اور لین دین کے اصول اور حدود متعین کرتی ہے۔اس میں ملکی وملی وقار کی حفاظت کے ساتھ ساتھ دو طرفہ تعلقات اور عالمی بھائی چارے کی سنہری اور فطری اقدار کا پاس پایا جاتا ہے۔
khulasa
is mazmoon mein bataya gaya hai ke islam ke world view ke mutabiq mulk ki aik خاص خارجہ policy muratab hoti hai. jo imf aur deegar aalmi maliyati idaron se mulki maeeshat ke taamul aur lain deen ke usool aur hudood mutayyan karti hai. is mein izzat e nafs avroqar ki hifazat ke sath sath akhuwat, rafaqat aur aafaqiat ki sunehri aur fitri eqdaar ka paas paaya jata hai.
[…] اسلامی سیاسیات • سیاسیات […]
[…] اسلامی سیاسیات • سیاسیات […]
[…] اسلامی سیاسیات • سیاسیات […]