Home » لابنگ اسلام کی روشنی میں | Lobbying-Islam-ki-roshni-main
اسلامی سیاسیات سیاسیات

لابنگ اسلام کی روشنی میں
| Lobbying-Islam-ki-roshni-main

لابنگ  سے مراد حکومتی فیصلوں یا پالیسیز پر مختلف حیلوں طریقوں سے اس طرح اثر انداز ہونا ہے، جس سے خاطر خواہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوجائیں۔

لابنگ کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔یہ جس طرح ملک کی داخلہ پالیسی کے معاملات میں ہوتی ہے، ایسے ہی  خارجہ پالیسی کے امور میں بھی برتی جاتی ہے۔اسی طرح یہ کبھی ناجائز اور ممنوع ہوتی ہے، اور کبھی جائز اور پسندیدہ۔

اسلام کی رو سےلابنگ کے لئے میرٹ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ جومفادات حاصل کئے جائیں وہ پبلک کے حق میں ان کے بی ہاف پر حاصل کئے جائیں۔ایسے مطالبات  جو عوام کی خواہشات کی عکاسی نا کرتے ہوں اور ان کے فوائد وثمرات کسی طبقے سے خاص ہوں، لابنگ کے ذریعہ ان کاحصول ناجائز ہیں۔

اسی طرح دباؤ اور اثرورسوخ  کے استعمال سے ایسے مقاصد یا اقدامات کے لئےجواز یا تائید حاصل  کرنا جو قانون وآئین کی سپریمیسی اور تقدس کو مجروح کرتے ہوں ناجائز ہے۔

اورجہاں ان تحفظات کی رعایت رکھی جائے اور ان سے ملکی وملی اور عالمی وانسانی  ہمہ گیر فوائد حاصل کرنا پیش نظر ہو، تو اس کی راہ میں حائل غیرمتوازن آئینی قراردادوں کی ترمیم اورنئی دفعات کےاجراء کے حصول کودباؤ، ذہن سازی،ہمنوائی اور اثر ونفوذ کے مختلف   حیلوں طریقوں سے یقینی بنانا پسندیدہ ہو گا۔

Lobbying se morad hakoomati faislon ya policies par mukhtalif hilon tareeqon se is terhan assar andaaz hona hai, jis se khatir khuwa matlooba nataij haasil ho jaien.

Lobbying ka daira car bohat wasee hai. yeh jis terhan malik ki dakhla policy ke mamlaat mein hoti hai, aisay hi kharja policy ke umoor mein bhi Barti jati hai. isi terhan yeh kabhi najaaiz aur mamnoo hoti hai, aur kabhi jaaiz aur pasandeeda.

islam ki roo se lobbying ke liye merritt yeh hai ke is ke zareya جومفادات haasil kiye jayen woh public ke haq mein un ke bi half par haasil kiye jayen. aisay mutalibaat jo awam ki khwahisaat ki akkaasi na karte hon aur un ke fawaid وثمرات kisi tabqay se khaas hon, lobbying ke zareya un ka hsol najaaiz hain.

isi terhan dabao aur asar o rasookh ke istemaal se aisay maqasid ya iqdamaat ke liye juwaz ya taied haasil karna jo qanoon وآئین ki sprimisi aur taqaddus ko majrooh karte hon najaaiz hai.
or jahan un tahaffuzaat ki riayat rakhi jaye aur un se mulki وملی aur aalmi وانسانی hama geer fawaid haasil karna paish e nazar ho, to is ki raah mein haail ghirmtwazn aaeni qarardadon ki tarmeem avrnyi daf-aat ke ajra ke husool کودباؤ, zehen saazi, hamnawai aur assar vnfoz ke mukhtalif hilon tareeqon se yakeeni banana pasandeeda ho ga.

کیا عوام حکومت پر اثر انداز ہوسکتی ہے؟

اسلام کے نکتہءنظر سے کوئی بھی حکومت اپنی عوام کی نمائندہ ہوتی ہے۔وہ پبلک کی ضروریات اورسہولیات کو ان کے وکیل کی حیثیت سے ممکن بنانے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔اس لئے حکومت اور ریاست کوایک تو  پبلک کی امنگوں اور خواہشات کاترجمان ہونا چاہئے، اور دوسرا ان کے بی ہاف پر ان کے مفادات کا نگہبان بھی ہونا چاہئے۔

چنانچہ اس معاملہ میں حکومت اگر اپنے قوانین اور پالیسیز کے اجراء اور ان پر عمل درآمد میں جبر واستبداد سے کام لے اور لچک کی بجائے ناروا سختی دکھائے یا بے انصافی سے  مخصوص طبقات سےجانبداری یانوازش کا مظاہرہ کرے۔تو عوام کو حق ہےکہ وہ اپنے حق کی آواز اٹھاتے ہوئے،اتحاد ویگانگت کے ساتھ حکومت پر دباؤ ڈالیں۔

اسی لئے آمریت کے ان مفاسد کے پیش نظر اسلامی قانون کے ماہرین فقہاء کی ایک رائے یہ ہے کہ سربراہ مملکت کو پارلیمنٹ کے مشورے اور قانون سازی پر عمل درآمد کا پابند بنانا جائز ہے۔جبکہ دیگر فقہاء کے نزدیک سربراہ مملکت کو کم ازکم اہل رائے حضرات سے مشورہ لینا چاہئے، تاکہ معاملہ کے تمام پہلو اس کے سامنے رہیں۔

کیا لوگ آئین پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؟

یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ آئین وقانون کو تقدس اور بالادستی حاصل ہوتی ہے، لابنگ کے اس عمل کے ذریعہ وہ پامال ہوتی ہے؟

قانون  کو بلاشبہ سپریمیسی حاصل ہوتی ہے، اور ہر کس وناکس کو اس پر نکتہ چینی کا حق نہیں ہوتا، رول اینڈلاء سے ہی امن وامان اور انتظام قائم رہتا ہے۔لیکن قانون کا ایک حصہ وہ ہے جو خدائی احکامات اور واضح تصریحات پر مشتمل ہے۔اس پر اعتراض اٹھانے کا حق عوام تو کجا خود حکمران کو بھی نہیں ہوتا۔

آئین وقانون کا دوسرا حصہ وہ ہے جواختیاری ہوتا ہے۔جسے حکومت اپنے طے شدہ مقاصد اور ترجیحات کے حصول کے لئےاپنی صوابدید کے مطابق  بطور سہولت ،انتظام  اور مینیجمنٹ کے تشکیل دیتی ہے۔قانون کا یہ حصہ چونکہ تجربہ اور استقراء پر مبنی ہوتا ہے، اس لئے اس میں کمی کوتاہی کا رہ جانا یقینی ہے۔

ایسی انتظامی پالیسیوں کے متعلق لوگوں میں تحفظات رہ جاتے ہیں، جس کا اظہار مطالبات اور مظاہرات کی صورت میں کرتے ہیں اس کےلئے حکومت کو لچک کا موقف اپنانا چاہئے۔اور جمہور کی ضرورت اور سہولت کے مطابق قانونی  تبدیلیاں اور ترامیم عمل میں لانی چاہئیں۔

آپ یہ مضمون بھی پڑھنا پسند کریں گے: آئی ایم ایف؛ ملکی معیشت اور اسلام

kya awam hukoomat par assar andaaz hosakti hai?

islam ke نکتہءنظر se koi bhi hukoomat apni awam ki numainda hoti hai. woh public ki zaroriat avrsholyat ko un ke wakeel ki hesiyat se mumkin bananay ki zimma daar hoti hai. is liye hukoomat aur riyasat kwayk to public ki umangon aur khwahisaat کاترجمان hona chahiye, aur dosra un ke bi half par un ke mafadaat ka nigehbaan bhi hona chahiye.
chunancha is maamla mein hukoomat agar –apne qawaneen aur policies ke ajra aur un par amal daraamad mein jabar vastbdad se kaam le aur lachak ki bajaye naarwa sakhti se dukhaay ya be insafi se makhsoos tabqaat par Nawazish aur janibdari ka muzahira kere. to awam ko haq hai ke woh ittehaad ویگانگت ke sath hukoomat par dabao dalain.
isi liye aamriyat ke un mfasd ke paish e nazar islami qanoon ke mahireen فقہاء ki aik raye yeh hai ke sarbarah mumlikat ko parliment ke mashwaray aur qanoon saazi par amal daraamad ka paband banana jaaiz hai. jabkay deegar فقہاء ke nazdeek sarbarah mumlikat ko kam azkam ahal raye hazraat se mahswara lena chahiye, taakay maamla ke tamam pehlu is ke samnay rahen.

kya log aeen par assar andaaz ho satke hain?

yahan yeh sawal bhi ahem hai ke aeen وقانون ko taqaddus aur baladasti haasil hoti hai, labng ke is amal ke zareya woh pamaal hojati hai ?
qanoon ko bilashuba sprimisi haasil hoti hai, aur har kis وناکس ko is par nuqta cheeni ka haq nahi hota, rule اینڈلاء se hi aman o aman aur intizam qaim rehta hai. lekin qanoon ka aik hissa woh hai jo khudai ehkamaat aur wazeh تصریحات par mushtamil hai. is par aitraaz uthany ka haq awam to kuja khud hukmaran ko bhi nahi hota.
aeen وقانون ka dosra hissa woh hai جواختیاری hota hai. jisay hukoomat –apne tay shuda maqasid aur tarjeehat ke husool ke liye apni swabdid ke mutabiq bator sahoolat, intizam aur management ke tashkeel deti hai. qanoon ka yeh hissa chunkay tajurbah aur استقراء par mabni hota hai, is liye is mein kami kotahi ka reh jana yakeeni hai .
aisi intizami policion ke mutaliq logon mein tahaffuzaat reh jatay hain, jis ka izhaar mutalibaat aur مظاہرات ki soorat mein karte hain is ke liye hukoomat ko lachak ka muaqqaf apnaana chahiye. aur jamhoor ki zaroorat aur sahoolat ke mutabiq qanooni tabdeelian aur tarameem amal mein lani chahiye.

mamnooa lobbying

لابنگ کی ممنوعہ صورتیں

مصلحت عامہ اور عمومی فلاح وبہبود کی بجائے کسی خاص طبقے کی جانب سے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کی کوشش جب دھونس کی شکل اختیار کر جاتی ہے تو یہ قانونی اوراخلاقی ہر دو اعتبار سے مذموم ٹھہرتی ہے۔کیونکہ عام طورپر کسی ایک طبقہ کی جانبداری باقی لوگوں کے لئے ضرررساں ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر بزنس انڈسٹری میں کارپوریٹس  اور انٹرپرینوئیرجب ایک یونین کی صورت میں لابنگ کرتے ہیں اور اس میں مختلف بینکاروں، بیوروکریٹس اورججز اور جرنلز کو شیئر ہولڈر بنا لیتے ہیں تو سب مل کر ٹیکسز سے چھوٹ کی مختلف شکلوں کو قانونی پذیرائی دلاتے ہیں،اور اس کا نقصان عام لوگوں کواٹھانا پڑتا ہے۔

اسی طرح سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کےلئے اپنے حلیفوں اور حریفوں کے لئے لابنگ کرتے ہیں ۔اور اس میں سیاسی اثر ونفوذ، اور پریشر کو استعمال میں لاتے ہیں۔اور اپنی مطلب براری میں لوگوں کےضمیر خریدے جاتے ہیں، ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے،لوٹوں اور نوٹوں کاراج ہوتا ہے،میڈیا کل پرزہ کا کردار اداء کرتا ہے،اور بالآخر اپنے حق میں قانون سازی کروالی جاتی ہے۔لابنگ اورکمپیننگ کی تمام ممنوعہ صورتوں میں جو بات مشترک ہے وہ خود غرضی، بےحسی  اور خودسری ہے۔

لابنگ کی مجوزہ شکلیں

اپنے جائز حق کے حصول کے لئے کوئی بھی تدبیر اختیار کی جاسکتی ہے، ان لیس کے اس میں دوسرے لوگوں کے حقوق متاثر  ہوتے ہوں۔کسی شخص کی جان مال عزت وآبرو یا نظریہ وفکر اسٹیک پر ہو تو اس کے لئے بالکل روا ہے کہ وہ اپنے حقوق کی بحالی کے لئے لابنگ سے کام لے، کمپین کر کے اپنے ہمنوا ؤں کا حلقہ تیار کرے، یا بااثر اور باحیثیت  شخصیات اور جماعتوں سے رابطہ قائم کر کے اپنے حقوق کی دستیابی کی کوشش کرے۔

اس کی ایک مثال سیاسی جماعتوں کی لابنگ کمپینز ہیں۔جن کے ذریعہ  وہ اپنے نظریہ کو اجاگر کرتے ہیں، اپنی امیج کی بلڈنگ کا کام لیتے ہیں، تحریکوں، جلسوں کے ذریعہ اپنے ہم خیال لوگوں کی ایک جمعیت تیار کرتے ہیں۔اور میڈیا پرسنز، تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں کے ذریعہ سے ناصرف اپنا سیاسی قد اونچااور بے داغ ثابت کرتے ہیں بلکہ اپنی مقبولیت اور پذیرائی میں اضافہ کرتے ہیں۔

لابنگ اورخارجہ پالیسی

جیسا کہ ابتداء میں کہا گیا لابنگ کی ایک سطح ملکی لیول کی ہے ، اس میں داخلہ پالیسی پر اثرانداز ہوا جاتاہے۔اور اس کی ایک سطح بین الاقوامی ہے ، جس میں ایک ملک اپنی خارجہ پالیسی میں لابنگ کواستعمال کرتے ہوئے انٹرنیشنل لاء پر اثرانداز ہوتا ہے۔تاہم اس کےلئے ضروری ہے کہ وہ ایسے مشترک مقاصد رکھتا ہو جن کی بنیاد پر وہ عالمی برادری میں اپنے ہم خیال حلقوں سے رشتہءمفاہمت قائم کرسکے۔

اسلام جس کی بنیاد آفاقیت اور عالمگیریت پر ہے اس کے ساتھ وہ فطری دین ہے اور اپنی وسعت میں تمام اقوام وبراعظموں کے لوگوں کو ان کی رسوم وروایات سمیت اپنانے کی گنجائش رکھتا ہے۔اس کے سنہری مبادی میں سے اخوت، حریت، مساوات اور انصاف ہیں ۔اور یہ ایسے مسلمات ہیں جن کی بنیاد پر محکم لابنگ کرنا ممکن ہے۔

اس کے مقابل ایسی لابنگ جو محدود قومی ولسانی عصبیتوں  اور مخصوص علاقائی ونسلی نسبتوں کی بنیاد پر ہوجو عارضی ہونے کے ساتھ ساتھ  اپنے اندر نظریاتی وسعت اور لچک نا رکھتی ہوکبھی ٹک نہیں سکتی ، وہ ایک مختصر عرصے کے بعد دم توڑ  دیتی ہے۔

بنوامیہ کی سیاست اگرچہ قومی اور عربی لسانیت کی اسا س پر قائم ہوئی لیکن اس کی پشت پر اسلام کی وسیع الظرفی کی فکری بنیادیں تھیں اس لئے عرب وعجم اس میں سما  گئے۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عجمیوں کےفوج درفوج قبول اسلام سے  ایک مخلوط سماج تشکیل پا گیا اور قومی ولسانی عصبیت کمزور پڑ گئی تو امویوں کا اقبال بھی روبہ زوال ہو گیا۔یہاں تک کہ بنوعباس نے ایرانیوں کی مدد سے ان کا تختہ الٹ دیا۔

لابنگ کی مجوزہ صورتوں میں سے ایک تلمیح وتعریض کا استعمال بھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی اسٹیٹمنٹ یا موقف دینا  جس کے دو مطلب ہوں، مخاطب اس سے ظاہر مفہوم لے جبکہ آپ اس سے دوسرا مفہوم مراد لیں۔اسلام کے مطابق لوگوں کی اصلاح کے لئے یا ان میں اتحاد کا بیج بونے کی خاطر ان کی مصلحت عامہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا پروپیگنڈہ ، کمپیننگ  اورلابنگ کرنا جس میں بظاہر جھوٹ کا شائبہ ہو جائز ہے۔

خلاصہ

خلاصہ یہ کہ اسلام کی رو سےہر وہ لابنگ جو مضبوط  نظریات اور مسلمات کی  اساس پر قائم ہووہ مستحکم اوردیرپا ثابت ہوتی ہے۔اسلام کے مطابق اپنی بھلائی اور جائز حق کے حصول کے لئے ہر سطح پرایسی ذہن سازی، ہمنوائی ،تدبیر ، تبلیغ اور حیلہ اختیار کرنا جس سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے جائز ہے۔بلکہ ایسی تدابیر جن سے انسانیت کو فائدہ پہنچتا ہواور تعمیر وترقی  اور فلاح وبہبود کی صورتیں پیدا ہوتی ہوں ،  مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے۔

مزید پڑھئے: اسلامی فلاحی ریاست کی ترجیحات۔

Lobbying or Kharja policy

jaisa ke ibtida mein kaha gaya labng ki aik satah mulki level ki hai, is mein dakhla policy par asar andaaz sun-hwa jata hai. aur is ki aik satah bain al aqwami hai, jis mein aik malik apni kharja policy mein labng kwastamal karte hue international law par asar andaaz hota hai. taham is ke liye zaroori hai ke woh aisay mushtarik maqasid rakhta ho jin ki bunyaad par woh aalmi baradri mein –apne hum khayaal halqon se رشتہءمفاہمت qaim kar sakay.

islam jis ki bunyaad aafaqiat aur aalmgirit par hai is ke sath woh fitri deen hai aur apni wusat mein tamam aqwam وبراعظموں ke logon ko un ki rasoom وروایات samait apnane ki gunjaish rakhta hai. is ke sunehri مبادی mein se akhuwat, hurriyaat, masawaat aur insaaf hain. aur yeh aisay مسلمات hain jin ki bunyaad par mohakam labng karna mumkin hai.

is ke maqabil aisi labng jo mehdood qaumi ولسانی عصبیتوں  aur makhsoos ilaqai ونسلی nsbton ki bunyaad par ہوجو earzi honay ke sath sath  اپنے andar nazriati wusat aur lachak na rakhti ہوکبھی tik nahi sakti, woh aik mukhtasir arsay ke baad dam توڑ  deti hai.

khulasa

khulasa yeh ke islam ki roo se har woh Lobbying jo مضبوط  nazriaat aur مسلمات ki  اساس par qaim hvoh mustahkam اوردیرپا saabit hoti hai. islam ke mutabiq apni bhalai aur jaaiz haq ke husool ke liye har satah پرایسی zehen saazi, hamnawai, tadbeer, tableegh aur heela ikhtiyar karna jis se doosron ko nuqsaan nah puhanche jaaiz hai. balkay aisi tadabeer jin se insaaniyat ko faida pohanchana ho aur taamer وترقی  aur Falah vb_hbod ki soorten peda hoti hon,   mustahsan aur pasandeeda amal hai .

Add Comment

Click here to post a comment