Home » نشہ سےنجات کا اسلامی طریقہءعلاجnashe-se-nijat-ka-islami-tariqa-e-elajمنشیات سےبحالی صحت اور اعتماد ۔قوت ارادی سے نشہ کاعلاج۔ قوت ارادی کاسرچشمہ۔نشہ سے چھٹکارا پائیےاسلامی وروحانی علاج۔
علاج وتدابیر معرفی طریقہءعلاج

نشہ سےنجات کا اسلامی طریقہءعلاج
nashe-se-nijat-ka-islami-tariqa-e-elaj
منشیات سےبحالی صحت اور اعتماد ۔قوت ارادی سے نشہ کاعلاج۔ قوت ارادی کاسرچشمہ۔نشہ سے چھٹکارا پائیےاسلامی وروحانی علاج۔

گذشتہ چند صدیوں میں مغرب نے صنعت وحرفت میں بےانتہاء ترقی اورعروج حاصل کیا۔اس کے نتیجہ میں اسے جو سیاسی واقتصادی بالادستی حاصل ہوئی ، اس سے مرعوب ہوکر شکست خوردہ اقوام نے ہر معاملہ میں ان کی جائز وناجائز نقالی کو اختیار کرلیا۔ان کے طور طریقے، رسم ورواج کواپنانے میں بڑی فراخدلی سے کام لیا گیا ۔اور اس جانب سرموالتفات نہیں برتا گیا کہ ان کی صنعتی ترقی میں جائز اور صحت مند اعمال وعناصر کے ساتھ ساتھ ان ناجائز اوربدعادات واطوار کا کتنا حصہ تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ زوال پذیر قوموں کی اپنی سرمستی اوربدقماشی، عیاشی وعیاری اور رندی وبےکاری نے ان کے سامنےمایوسی اورشکست خوردگی کےپہاڑکھڑےکردئے۔ مادی زندگی کی ناہمواری، ناسازگاری اورمتنوع قسم کےدباؤاورتناؤ کے مجموعہ سے تنگ آکر ان میں سےبہت سوں نے حقیقت سے فرار کی راہ اپنا لی اور اپنے لئے مصنوعی آسودگی کے حصول کے طریقے اختیار کرنا شروع کر دئے۔

ان میں سے ایک نشہ کی لت اورمنشیات کا استعمال ہے۔یہ ایسی لعنت ہے جو اپنی ذات میں ایک مرض نہیں بلکہ بہت سے امراض اور مفاسد کا مجموعہ ہے۔منشیات کا استعمال جسمانی، مالی، سماجی اور اخلاقی ہر پہلو سے انتہائی مضرت رساں ہے۔اس سے نجات اور علاج کے لئے ہمیں ان اسباب ومفاسد کا تدارک کرنا ہوگا جو اس کی وجہ بنتے ہیں۔

نشہ سے چھٹکارا پانے کے لئےجہاں طبی علاج کی ضرورت ہے اس سے کہیں بڑھ کرہمیں فکری، ایمانی اورروحانی طریقہءعلاج کی ضرورت ہے۔اور اس کی وجہ یہ ہےکہ بنیادی طور پر سوچ وفکر اور اخلاق وکردار کی پستی اورکمزوری ہی نشہ اورمنشیات میں ملوث ہونے کی وجہ بنتی ہے۔

guzashta chand sadiiyon mein maghrib ne sanat وحرفت mein be inteha taraqqi اورعروج haasil kya. is ke nateeja mein usay jo siyasi vaqtsadi baladasti haasil hui, is se maroob hokar shikast khorda aqwam ne har maamla mein un ki jaaiz وناجائز naqali ko ikhtiyar karliya. un ke tor tareeqay, rasam o riwaj کواپنانے mein barri farakhdili se kaam liya gaya. aur is janib سرموالتفات nahi burta gaya ke un ki sanati taraqqi mein jaaiz aur sehat mand aamaal وعناصر ke sath sath un najaaiz اوربدعادات vatwar ka kitna hissa tha.

is ke sath sath zawaal Pazeer qomon ki apni srmsti اوربدقماشی, ayashi وعیاری aur rndi wabay kaari ne un ke samnay mayoosi اورشکست khordghi ke پہاڑکھڑے kardiye. maadi zindagi ki na hamwari, na-sazghaari اورمتنوع qisam ke دباؤاورتناؤ ke majmoa se tang aakar un mein se bohat soon ne haqeeqat se faraar ki raah apna li aur –apne liye masnoi aasoudgi ke husool ke tareeqay ikhtiyar karna shuru kar diye.

un mein se aik nasha ki latt avrmnshyat ka istemaal hai. yeh aisi laanat hai jo apni zaat mein aik marz nahi balkay bohat se amraaz aur mfasd ka majmoa hai. manshiat ka istemaal jismani, maali, samaji aur ikhlaqi har pehlu se intehai mazarrat rasan hai. is se nijaat aur ilaaj ke liye hamein un asbaab ومفاسد ka tadaruk karna hoga jo is ki wajah bantay hain.
nasha se chhutkara panay ke liye jahan tibbi ilaaj ki zaroorat hai is se kahin barh کرہمیں fikri, imani اورروحانی طریقہءعلاج ki zaroorat hai. aur is ki wajah yeh hai ke bunyadi tor par soch wa fikar aur ikhlaq vkrdar ki pasti اورکمزوری hi nasha avrmnshyat mein mulawis honay ki wajah banti hai.

کیا نشہ سکون کی دواء ہے؟

کسی بھی دانش مند شخص کو اس سے اختلاف نا ہو گا کہ منشیات کا استعمال کبھی بھی حقیقی اور دیرپا خوشی اور آسودگی کا ذریعہ ثابت نہیں ہوتا۔یہ راحت وسکون کے حصول کا ایک وقتی ،عارضی بلکہ مصنوعی طریقہ ہے۔ذہنی خوابیدگی کے اس عمل کے ذریعہ ہم دراصل حقیقت سے آنکھیں چرانے کا ساماں کرتے ہیں۔خواب وخمار میں مبتلاء ہو کر زندگی کے کڑوے سچ سے منہ موڑلیتے ہیں۔لیکن مشکلات سے گھبرا کر آنکھیں موند لینا کیا مسائل کاحل ہوگا؟

منشیات کے فروغ کے اسباب

اس حقیقت کوجاننے ماننے کے باوجود ہمارے معاشرے میں منشیات کا رواج قابل افسوس امر ہے۔جو چیز اپنے مفاسد کے اعتبار سےعقل ومنطق کے خلاف ہے، قاعدہ قانون اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، پھر ایسا کیوں ممکن ہوا کہ وہی ہمارے سماج میں ایک مقبول برائی بن کے پھیل گئی۔

اس کے پس پردہ بہت سے عوامل میں سے ایک یورپ کی اندھی تقلید میں ان کی بدعادات کو بھی اپنے لئے ترقی اور افتخار کی علامت سمجھنا ہے۔جہاں مجموعی حیثیت سے تعمیروترقی کا پہلو نمایاں نظر آتاہو وہاں تخریبی قوتوں کو بھی اسباب تعمیر  شمار کر لینا نہایت بےوقوفی کی علامت ہے،چہ جائیکہ اسے ٹرینڈفالوئنگ بنالیا جائے۔ہمارے معاشرے میں امراء کی بگڑی اولادیں اور ان کے فرینڈ سرکلز اورپارٹیز اسی کے مظاہر نظر آتے ہیں۔

ایک بڑی وجہ اس کایقینی تجارتی  فائدہ ہےجو کروڑوں اربوں میں ہوتا ہے۔اثرورسوخ کے حامل مختلف حلقے اورامراء وحکام کے مقتدر طبقے اس ناجائز کمائی سے بڑا حصہ پاتےہیں۔وہ جرائم پیشہ افراد اور ڈرگ مافیا کے قائم کردہ عیاشی اوربدکاری کے اڈوں اورکلبوں کو پرمٹ اورسپورٹ فراہم کرتے ہیں۔

اور اس کی تیسری اور بنیادی وجہ اخلاقی کمزوری اور خدا وآخرت پرایمان ویقین کی کمی ہے۔انسان خود سے مایوس نہیں ہوتا وہ دراصل اپنے پروردگار سے مایوس ہوجاتاہے۔ہمت عزیمت، جرات اور اقدام کا سرمایہ جس منبع ومعدن سے حاصل ہوتاہے ، وہ خدا تعالی کی ذات دیدہ وبینا ہے۔ایک مضبوط سہارے اور اسپورٹ کی بنیاد پر انسان بڑے سے بڑی مہم جوئی بھی کر سکتا ہے۔بڑے سے بڑا معرکہ بھی مار سکتا ہے۔لیکن اگر اس کی نظر اپنی ناتوانی پر ہو، اور بخت واتفاق پر اس کی امید بندھی ہو، خارجی حالات کی سازگاری  اور مادی اسباب کی فراہمی اس کی شرط اولین ہو تو سمجھ لیجئے کہ ڈوبتے نے تنکے پر تکیہ کیا ہے۔

Manshiat ke Farogh ke Asbaab

is haqeeqat کوجاننے maan-ne ke bawajood hamaray muashray mein manshiat ka rivaaj qabil afsos amar hai. jo cheez –apne mfasd ke aitbaar se aqal ومنطق ke khilaaf hai, qaida qanoon is ki hosla shikni karta hai, phir aisa kyun mumkin sun-hwa ke wohi hamaray samaaj mein aik maqbool buraiee ban ke phail gayi.

is ke pas parda bohat se awamil mein se aik Europe ki andhi taqleed mein un ki بدعادات ko bhi –apne liye taraqqi aur Iftikhar ki alamat samjhna hai. jahan majmoi hesiyat se tamirotrqi ka pehlu numaya nazar آتاہو wahan takhribi quwatoon ko bhi asbaab taamer shumaar kar lena nihayat be waqoofi ki alamat hai. chay jayik_h usay ٹرینڈفالوئنگ bnalya jaye. hamaray muashray mein umraa ki bigri avladin aur un ke friend srklz اورپارٹیز isi ke Mazahir nazar atay hain.

aik barri wajah is کایقینی tijarti faida hai jo karorron arbon mein hota hai. asar o rasookh ke haamil mukhtalif halqay اورامراء وحکام ke muqtadir tabqay is najaaiz kamaai se bara hissa paate hain. woh juraim pesha afraad aur drug mafia ke qaim kardah ayashi avrbdkari ke adon اورکلبوں ko permit اورسپورٹ faraham karte hain.

aur is ki teesri aur bunyadi wajah ikhlaqi kamzoree aur kkhuda وآخرت پرایمان ویقین ki kami hai. insaan khud se mayoos nahi hota woh darasal –apne parvar-digaar se mayoos hojatahe. himmat Azimat , jurrat aur iqdaam ka sarmaya jis manba ومعدن se haasil hota hai, woh kkhuda taala ki zaat deedaa وبینا hai. aik mazboot saharay aur sport ki bunyaad par insaan barray se barri muhim joi bhi kar sakta hai. barray se bara maarka bhi maar sakta hai. lekin agar is ki nazar apni natwani par ho, aur bikhat vatfaq par is ki umeed bandhi ho, kharji halaat ki سازگاری aur maadi asbaab ki farahmi is ki shart awleen ho to samajh lijiye ke doubtey ne tinke par takiya kya hai.

منشیات کے مفاسد

خرابیوں اور بےحیائیوں کی جڑ

ایک حدیث کے مطابق شراب خرابیوں، بےحیائیوں اور بدکاریوں کی جڑ اور بنیاد ہے۔اس سے ایک منکر نہیں بلکہ کئی منکرات جنم لیتے ہیں۔ایک شخص عام حالات میں قتل کرے گا یا ریپ کرے گا یا ڈکیت بنے گا۔لیکن اگر وہ نشہ میں مبتلاء ہے تو وہ تینوں کام کرےگا۔

مقاصد اسلام کے خلاف ہے

فقہاء کے مطابق اللہ تعالی نے انسانیت کی فلاح وبہبود اور بہتری کے لئے جو ہدایات اوراحکام عطاء کئے ہیں وہ پانچ چیزوں کی حفاظت اور رعایت کی خاطر دئے ہیں۔جان ،آبرو،مال، عقل اور فکر ہیں۔اور نشہ ان تمام امور کی بنیاد پر تیشہ زنی کرتا ہے۔

صحت وجان کا خسارہ

نشہ سلو پوائزن کی شکل میں انسان کی صحت اورجسم وجان کو اندر ہی اندر کھوکھلا کرتا جاتا ہے۔اسے طرح طرح کی بیماریوں ،  جسمانی بے اعتدالیوں اور کمزوریوں کا شکار بنا دیتا ہے۔حالانکہ انسان کی زندگی اس کے پاس امانت ہے۔

انسان کی عقل  وفکراور سوچ وبچار کی صلاحیتیں منشیات کے استعمال سے بری طرح مسخ ہوکر ماؤوف ہوجاتی ہیں۔جبکہ عقل خدا تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔اسی کی بنیاد پر اسے دنیا میں خدا کی خلافت کی خلعت سے نوازا گیا ہے۔اسی کی بنیاد پر دینی ودنیوی بھلائیوں کا حصول ممکن ہے۔

مال ومعاش کا نقصان

انسان کا مال اورمعاش اس کے لئے دنیا کے ساتھ دین کے استحکام اور قیام کا ذریعہ بھی ہے اور نشہ خوری کے عوض بڑی بڑی زمینیں،جائدادیں اور پُر شکوہ حویلیاں کوڑی کے داموں بِک جاتی ہیں ۔

عزت وآبروکی بربادی

جرائم پیشہ اور مافیا گروپ نوجوان بچوں کو نشہ کا عادی بنا کر استحصال کرتے ہیں۔انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے آلۂ کار بناتے ہیں۔ اور نشہ کی تھوڑی مقدار کے بدلہ  قتل و راہزنی ، چوری اور عصمت فروشی کے کام لیتے ہیں۔

سماجی برائی اورخرابی

الغرض نشہ دینی  واخلاقی اعتبار سے تو ظاہر ہی ہے ، اس کے علاوہ جسمانی، مالی، سماجی اور اخلاقی ہر لحاظ سے انتہائی مضرت رساں چیز ہے۔اسی وجہ سے نبیﷺنے نشہ کرنے والے، کروانے والے، اور ان کے سہولت کاروں، مزدوروں اورملازموں سب پر لعنت فرمائی ہے۔

نشہ سے نجات اور علاج

طبی علاج

نشہ کے ان نقصانات کا ذکر تو برسبیل تذکرہ کر دیا گیا ۔سبھی لوگ اس کو بری چیز جانتے ہیں۔اور اس کے مفاسد سب پر عیاں ہیں۔اصل یہ ہے کہ اس کا علاج کیا ہے؟ اور اس سے مستقل نجات کی کیا ممکنہ صورت ہو سکتی ہے؟

میڈیکل سائنس نشہ کا مطالعہ ان کیمیاوی تبدیلیوں کی بنیاد پر کرتی ہے جو اس کے استعمال کرنے والے شخص  کے جسم اور رویہ میں رونما ہوتی ہیں۔ان کے مطابق جسم میں گلوکوز کے لیول کی کمی قوت ارادی کو مضمحل بناتی ہے۔جو نشہ اور منشیات کی لت میں پڑ جانے کی بنیادی وجہ ہے۔تاہم جسم میں مختلف کیمیکلز کے افراز  میں  تبدیلی یا عدم توازن  غذائی عناصرکے علاوہ کچھ اور وجوہات کی بناء پر بھی ممکن ہےجن کا تعلق براہ راست ہمارے جذبات اور احساسات سے ہوتا ہے۔مثبت فکری اوررجائیت (آپٹمزم) قوت ارادی اور فعلیت کو تیز تر کرتے ہیں۔اور مایوسی اورناشکری اور حرص وہوس انہیں کنداورمانند بنا دیتے ہیں۔

نشہ سے نجات کا اسلامی طریقہءعلاج

علت کی تشخیص

نشہ کے عادی افراد کے حالات وواقعات کے جائزہ اور مشاہدہ سے یہ بات تشخیص ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ نشہ کی لت کالگنا عقل وفہم کی کمزوری اورقوت فیصلہ کی ناکارگی کے باعث ہوتا ہے۔کیونکہ جب نشہ کے تباہ کن نتائج سب پر عیاں ہیں تو بھی اس میں پڑ جانا یقینا ایسے ہی حالات کے جبر کے تحت ہو سکتا ہےجب سوچنے سمجھنے کی صلاحیت زنگ آلود ہو چکی ہویا دب چکی ہو۔

روٹ کاز

ابتداء میں فیشن یا ٹرینڈ کے تحت ، یا کسی کے ترغیب دلانے اور ضد کے باعث کوئی شخص نشہ کر لیتا ہے۔یا وقتی غم خلط کرنے کے لئے، اور یہ بھی ہو سکتا ہےکہ کسی مہم جوئی جیسے امتحانات ، مقابلہ کے دباؤ کے تحت نشہ کی ابتداء ہوجاتی ہے۔اور یہ تمام کمزوری اور شکست خوردگی کے لمحات ہوتے ہیں۔

علاج بالضد

اورجب رفتہ رفتہ اس کی عادت ہوجائے تو اس کا واحد علاج بھی اسی قوت ارادی کو مضبوط کرنے سے ہوگا۔اسے تقویت اور توانائی دلا کر اس بیماری سےجو جسم وجاں پر اپنے پنجے گاڑچکی ہوتی ہے، چھٹکارا پانا ممکن ہوگا۔لیکن اس کی مضبوطی کے لئے سہارا بھی مضبوط اوردیر پاچاہئے۔طبی علاج اور ادویہ وغیرہ سے جزوی بہتری ممکن بنائی جا سکتی ہے ۔اور صحت میں پیدا شدہ بگاڑ کاایک حد تک سنوارہوجاتا ہے۔لیکن مستقل بنیادوں پر اصلاح اس سے ممکن نہیں۔

ماحول اورصحبت کے اثرات

حواس خمسہ سے حاصل ہونے والے مواداور معلومات کے نتیجہ میں  انسان کے دل ودماغ پر بہت سے خیالات اورخواہشات امڈ آتے ہیں۔یہی خیالات اورتفکرات بعد ازاں بتدریج ارادے ، عمل اور عادت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ان اچھی یا بری عادتوں سے اس کی شخصیت بنتی ہے۔اس لئے انسان کو اپنے ماحول اور صحبت(کمپنی)کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔

ضمیر کی آواز

انسان کی فطرت میں خیروبھلائی کا ایک دیا جلتا رہتا ہےجو اسے حق اور سچ کی جانب چلنے پر آمادہ کرتا ہے۔اس کی فطرت میں خیر کاایک بیج پڑا ہوتا ہے۔اگر وہ اس دیے یا بیج کی نگہداشت کرتا ہےاس کے حال کے موافق ہوا روشنی کا انتظام کرتا ہے تو ایک دن وہ بیج اپنے برگ وبار لاتا ہےاور وہ دیا ایک فانوس کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔اس لئے صحبت صالحاں اور بہی خواہوں کے حلقہءیاراں کا انتخاب کرنا چاہئے۔

توحید پرستی

اس کے بعد انسان کا ایمان ویقین بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔کسی قادرمطلق ہستی کا اقرارو اعتراف اور اس پر بھروسہ ویقین انسان کے عزم وہمت کو جلاء بخشتا ہے۔انسان اپنی ہستی میں نہایت ناتواں ہے۔نا وہ پہاڑ جیسی مضبوطی رکھتا ہے، نا آسمان جیسی بلندی، نا ہوا جیسی تندی وتیزی اورنا ہی پانی جیسی روانی۔

لیکن ایک غالب وقاہر ذات والابرکات کے سہارے وہ آسمان اور زمین کا سینہ چاک کر لیتاہے، ہوا اور سمندر کو اپنی سواری بنا لیتا ہے۔اس زبردست ذات نے اسے اپنی محبت اورجستجو  کا عشق نصیب فرما کرعقل وفہم اورفراست کی ایسی دولت سے نوازا ہے جس کے نتیجہ میں زمین وآسمان اس کے عزم وارادہ کے آہنی اوربلندی کے سامنے ہیچ ہوگئے ہیں۔

اسی کی بدولت وہ سارے زورآوروں کو اپنے سامنے بے زور بنائے ہوئے ہے،سانڈھوں کو سدھائے ہوئے ہے ،شیروں کو پھنسائے ہوئے ہے ، وہیلوں کا شکار کر رہا ہے ، گینڈوں کو للکار رہا ہے۔اس کے طائر فہم کی پرواز اس قدر بلند ہو چکی ہے کہ وہ حق کی تلاش اور جستجو میں جراتمندی کے ساتھ ہرسو کائنات میں تسخیر وتعمیر کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔اس کی فتوحات ہیں کہ بڑھتی ہی جارہی ہیں۔

ایمان ویقین کی پختگی

لیکن انسان کی خودی کی اس پرواز میں اگر منزل کھو جائے، ھدف نگاہ سے اوجھل ہوجائے۔یعنی خدائے بزرگ وبرتر پر یقین اوربھروسہ ختم ہو جائے۔اس سے تعلق اتنا کمزور ہوجائے کہ اس کی محبت اور جستجو کے نظارے دیکھنے کی تمنا  نا رہے۔تو یہی وہ کیفیت ہے جب وہ اس کو اتنا کمزور اور ہیچ بنا دیتی ہےکہ وہ دیدہ دانستہ نشہ اور مایوسی جیسی بیماریوں میں مبتلاء ہوجاتا ہے۔انسان کے سامنے جب تک کوئی اونچا ہدف یا بلندی  نا رہے تو وہ تن کر کھڑا بھی نہیں ہوسکتا۔وہ جھکتے جھکتے اسفل السافلین تک جا پہنچتا ہے۔

اپنی حقیقت کا اعتراف اور ادراک

انسان کو یہ احساس پیدا کرنا ہوگا کہ قوت، قدرت اورکارہائے نمایاں تو ایک طرف وہ اپنےنیت اور ارادہ کا بھی ازخود مالک نہیں۔اسے جو ارادہ وفیصلہ کا ذرہ بھی نصیب ہوتا ہے تو اللہ رب العزت کے خزانہ سے اور اس کی توفیق سے ملتا ہے۔وہ جوکچھ کرنا چاہتا ہے یا کرپاتا ہے وہ اس کی دستگیری کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتا۔ اپنے ارادہ کا مالک خود کو سمجھنا ایسا ہی ہےکہ یہ مان لیا جائے کہ اس کا ارادہ خدا کی مخلوق نہیں ۔کائنات میں انسان سمیت ہر سو مختلف مظاہر میں خدا کی قدرت اور صناعت ظہور کرتی ہے۔

تقدیر پرایمان

خدا کی قدرت اور صناعت سے ادنی تعلق اور درمیانی واسطہ بننےکے باعث انسان افعال وواقعات کامالک خود کو سمجھنے لگتاہے۔اوراس کی حالت بالکل اس بچہ کی مانند ہوتی ہے جو اپنے باپ کی گود میں بیٹھ کر گاڑی کا اسٹیئرنگ گھما کرخوشی سے پھولا نہیں سماتا کہ وہ ایک گاڑی چلا رہا ہے۔اگر باپ کی پشت پناہی نا ہو تو وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کی جرات بھی نا کرے۔

انسان اپنی زندگی کے مختلف حالات میں کبھی پست ہمتی یا کوتاہ عملی کا شکار ہوتا ہےتو اس کی بنیادی وجہ یہی احساس تنہائی اور ناتوانی کا احساس ہوتا ہے۔جس کے باعث چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اسے کوہ گراں محسوس ہوتا ہے۔اگر وہ اپنے لئے خدا تعالی کی پشت پناہی کو یقینی بنا لے، اس کی محبت وجستجو کو اپنی منزل بنا لے تو قوت، تائید اور توفیق کا ایک خزانہ اس کے ہاتھ لگ جائے۔اور وہ اس بھروسہ پر بڑی سے بڑی مصیبت  یاآفت سے لڑ جانے پر آمادہ ہوجائے۔اور ناممکن الحصول منزلوں کو اپنے لئے ممکن الوصول سمجھنے لگ جائے۔

نشہ سے نجات کا روحانی طریقہءعلاج

عقیدہء توحید اورتصورآخرت یعنی خدا کی محبت ومعرفت کا شوق اور اس کے غصہ وانتقام کا خوف دو زبردست محرکات ہیں۔اگر انسان ان کا ٹھیک ادراک اور استحضار پیدا کرلے تو کبھی قوت ارادی کی کمزوری کی شکایت نا کرے۔بلکہ ہر دم چاک وچوبند اور مستعد ہو کر اپنے ہدف کے حصول میں مصروف رہے۔اس کا یہ نظریہ کے وقتی ناکامی بھی خدا تعالی کی اس مصلحت کا جزء ہے جو اس نے اس  کے لئے پلان کر رکھی ہے، اس کے حوصلہ کو پست نہیں ہونے دیتی بلکہ وہ ناکامی میں بھی کامیابی کی لذت پاتا ہے۔

Nasha se Nijaat aur Elaaj

Tibbi Elaaj

nasha ke un nuqsanaat ka zikar to brsbil tazkara kar diya gaya. sabhi log is ko buri cheez jantay hain. aur is ke mfasd sab par ayaan hain. asal yeh hai ke is ka ilaaj kya hai? aur is se mustaqil nijaat ki kya mumkina soorat ho sakti hai?

medical science nasha ka mutalea un chimiavi tabdeelion ki bunyaad par karti hai jo is ke istemaal karne walay shakhs ke jism aur rawayya mein runuma hoti hain. un ke mutabiq jism mein glucose ke level ki kami qowat iraadi ko muzamahil banati hai. jo nasha aur manshiat ki latt mein par jane ki bunyadi wajah hai. taham jism mein mukhtalif kimiklz ke afraaz mein tabdeeli ya Adam tawazun ghizai عناصرکے ilawa kuch aur wajohaat ki binaa par bhi mumkin hai jin ka talluq barah e raast hamaray jazbaat aur ehsasat se hota hai. misbet fikri اوررجائیت ( آپٹمزم ) qowat iraadi aur فعلیت ko taiz tar karte hain. aur mayoosi اورناشکری aur hiras وہوس inhen کنداورمانند bana dete hain.

Nasha se Nijaat ka islami طریقہءعلاج

illat ki tashkhees

nasha ke aadi afraad ke halaat وواقعات ke jaiza aur mushahida se yeh baat tashkhees hokar samnay ajati hai ke nasha ki latt کالگنا aqal vfhm ki kamzoree اورقوت faisla ki ناکارگی ke baais hota hai. kyunkay jab nasha ke tabah kin nataij sab par ayaan hain to bhi is mein par jana yaqeenan aisay hi halaat ke jabar ke tehat ho sakta hai jab sochnay samajhney ki salahiyat zeng alood ho chuki hoya dab chuki ho.

root cause

ibtida mein fashion ya trained ke tehat, ya kisi ke targheeb dilanay aur zid ke baais koi shakhs nasha kar laita hai. ya waqti gham khalt karne ke liye, aur yeh bhi ho sakta hai ke kisi muhim joi jaisay imtehanaat, muqaabla ke dabao ke tehat nasha ki ibtida hojati hai. aur yeh tamam kamzoree aur shikast khordghi ke lamhaat hotay hain.

ilaaj بالضد

avrjb rafta rafta is ki aadat hojaye to is ka wahid ilaaj bhi isi qowat iraadi ko mazboot karne se hoga. usay taqwiyat aur tawanai dila kar is bemari se jo jism وجاں par –apne pnje گاڑچکی hoti hai, chhutkara paana mumkin hoga. lekin is ki mazbooti ke liye sahara bhi mazboot اوردیر پاچاہئے. tibbi ilaaj aur adwiyah waghera se juzwi behtari mumkin banai ja sakti hai. aur sehat mein peda shuda bigaar kaayk had tak سنوارہوجاتا hai. lekin mustaqil bunyadon par islaah is se mumkin nahi.

mahol اورصحبت ke asraat

hawaas Khamsa se haasil honay walay مواداور maloomat ke nateeja mein insaan ke dil vdmagh par bohat se khayalat اورخواہشات umadd atay hain. yahi khayalat اورتفکرات baad azan batadreej iraday, amal aur aadat ki shakal ikhtiyar kar letay hain. un achi ya buri aadato se is ki shakhsiyat banti hai. is liye insaan ko –apne mahol aur sohbat ( company ) ke baray mein bohat ahthyat se kaam lena chahiye.

zameer ki aawaz

insaan ki fitrat mein خیروبھلائی ka aik diya jalta rehta hai jo usay haq aur sach ki janib chalne par amaada karta hai. is ki fitrat mein kher kaayk beej para hota hai. agar woh is diye ya beej ki nighdasht karta hai is ke haal ke mawafiq sun-hwa roshni ka intizam karta hai to aik din woh beej –apne barg vbaar lata hai aur woh diya aik fanoos ki shakal ikhtiyar kar sakta hai. is liye sohbat صالحاں aur bahi khuwahon ke حلقہءیاراں ka intikhab karna chahiye.

toheed parasti

is ke baad insaan ka imaan ویقین bunyadi ahmiyat ka haamil hai. kisi qadrmtlq hasti ka اقرارو aitraaf aur is par bharosa ویقین insaan ke azm وہمت ko Jalah bakhshta hai. insaan apni hasti mein nihayat naatvaan hai. na woh pahar jaisi mazbooti rakhta hai, na aasman jaisi bulandi, na sun-hwa jaisi tundi وتیزی اورنا hi pani jaisi ravani.

lekin aik ghalib وقاہر zaat والابرکات ke saharay woh aasman aur zameen ka seenah chaak kar litahe, sun-hwa aur samandar ko apni sawari bana laita hai. is zabardast zaat ne usay apni mohabbat اورجستجو ka ishhq naseeb farma کرعقل vfhm اورفراست ki aisi doulat se nawaza hai jis ke nateeja mein zameen وآسمان is ke azm وارادہ ke aahinii اوربلندی ke samnay heech hogaye hain.

isi ki badolat woh saaray زورآوروں ko –apne samnay be zor banaye hue hai, سانڈھوں ko سدھائے hue hai, sheron ko phnsaye hue hai, وہیلوں ka shikaar kar raha hai, گینڈوں ko lalkaar raha hai. is ke Tair feham ki parwaaz is qader buland ho chuki hai ke woh haq ki talaash aur justojoo mein jratmndi ke sath har-suu kaayenaat mein taskheer vtamir ke jhanday garh raha hai. is ki ftohat hain ke barhti hi jarahi hain.

imaan ویقین ki pukhtagi

lekin insaan ki khudi ki is parwaaz mein agar manzil kho jaye, hdf nigah se oojhal hojaye. yani khuday-e buzurag وبرتر par yaqeen اوربھروسہ khatam ho jaye. is se talluq itna kamzor hojaye ke is ki mohabbat aur justojoo ke nazare dekhnay ki tamanna na rahay. to yahi woh kefiyat hai jab woh is ko itna kamzor aur heech bana deti hai ke woh deedaa danista nasha aur mayoosi jaisi bimarion mein مبتلاء hojata hai. insaan ke samnay jab tak koi ouncha hadaf ya bulandi na rahay to woh tan kar khara bhi nahi ho sakta. woh jhukatey jhukatey asfal السافلین tak ja pohanchana hai.

apni haqeeqat ka aitraaf aur idraak

insaan ko yeh ehsas peda karna hoga ke qowat, qudrat اورکارہائے numaya to aik taraf woh –apne niyat aur iradah ka bhi azkhud maalik nahi. usay jo iradah وفیصلہ ka zarra bhi naseeb hota hai to Allah rab ulizzat ke khazana se aur is ki tofeq se milta hai. woh jokchh karna chahta hai ya krpata hai woh is ki dastgeeri ke baghair mumkin hi nahi hota. –apne iradah ka maalik khud ko samjhna aisa hi hai ke yeh maan liya jaye ke koi cheez kkhuda ki makhlooq nahi. kaayenaat mein insaan samait har so mukhtalif Mazahir mein kkhuda ki qudrat aur Sanaat zahuur karti hai.

taqdeer پرایمان

kkhuda ki qudrat aur Sanaat se adna talluq aur darmiyani vaastaa ban’nay ke baais insaan af-aal وواقعات کامالک khud ko samajhney lgtahe. aur iss ki haalat bilkul is bacha ki manind hoti hai jo –apne baap ki goad mein baith kar gaari ka stearing ghuma کرخوشی se phoola nahi samata ke woh aik gaari chala raha hai. agar baap ki pusht panahi na ho to woh driving set par bethnay ki jurrat bhi na kere.

insaan apni zindagi ke mukhtalif halaat mein kabhi pust himmati ya kotah amli ka shikaar hota hai to is ki bunyadi wajah yahi ehsas tanhai aur natwani ka ehsas hota hai. jis ke baais chhootey se chhota kaam bhi usay koh giran mehsoos hota hai. agar woh –apne liye kkhuda taala ki pusht panahi ko yakeeni bana le, is ki mohabbat وجستجو ko apni manzil bana le to qowat, taied aur tofeq ka aik khazana is ke haath lag jaye. aur woh is bharosa par barri se barri museebat یاآفت se lar jane par amaada hojaye. aur namumkin al husool manzlon ko –apne liye mumkin الوصول samajhney lag jaye.

Nashe se nijat ka roohani triqa e elaj

عقیدہء toheed اورتصورآخرت yani kkhuda ki mohabbat wa ma arfat ka shoq aur is ke gussa وانتقام ka khauf do zabardast muharikaat hain. agar insaan un ka theek idraak aur استحضار peda karle to kabhi qowat iraadi ki kamzoree ki shikayat na kere. balkay har dam chaak vchobnd aur mustaed ho kar –apne hadaf ke husool mein masroof rahay. is ka yeh nazriya ke waqti nakami bhi kkhuda taala ki is Maslehat ka جزء hai jo is ne is ke liye plan kar rakhi hai, is ke hosla ko pust nahi honay deti balkay woh nakami mein bhi kamyabi ki lazzat paata hai.

مزید پڑھئے:  بری عادتوں کاعلاج۔ ناآسودگی؛اثرات،وجوہات اور علاج۔پژمردگی کے اسباب اورعلاج۔ناشکری کاعلاج۔رجائیت پسندی؛کیا، کیوں اور کیسے؟۔آئیے یکسوئی پیدا کریں۔