فہرست
تعارف
واقعہءکربلا محض جانبازی اورجانفروشی کا ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ ہمت اورعزیمت کی ایک داستان ہے جس نے ایک سیاسی قضیہ میں دین کی وقعت ،اہمیت اور ترجیح کو اجاگر کیا۔اور ثابت کیا کہ ہمارا جینا مرنا دین کی سرفرازی کے لئے ہے۔
دین ودنیا
اقبال نے بجا طور پر کہا تھا کہ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہےچنگیزی۔اور وہ دین جو اپنے روز اول سے اس بات کا دعویدار ہے کہ وہ ایک مکمل ضابطہءحیات ہےاور اپنے ماننے والوں کے لئےدنیا وآخرت کی بھلائی اور کامیابی کی نوید بن کر آیا ہے۔کیسے ممکن تھا کہ وہ ان کو انفرادی زندگی سے متعلق آداب وتعلیمات تو فراہم کرتا ، لیکن اجتماعی زندگی کے متعلق ہدایات سے محروم رکھتا۔
دین اور سیاست
یہی وجہ تھی کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قوموں کی دینی وسیاسی ہر دو قسم کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتےرہے ۔وہ ایک طرف انہیں آداب بندگی سکھاتے،عبادات اور معاملات کے احکام سے آگاہ کرتے ، مکارم اخلاق اور رزائل سے متنبہ کرتے۔تو دوسری جانب انہیں حکمرانی اور جہانبانی کے اصول وضوابط سے متعلق عملی راہنمائی بھی عطاء کرتے۔
Taaruf
واقعہءکربلا mehez janbazi اورجانفروشی ka aik tareekhi waqea nahi, balkay himmat اورعزیمت ki aik daastaa’n hai jis ne aik siyasi qazia mein deen ki waqat, ahmiyat aur tarjeeh ko ujagar kya. aur saabit kya ke hamara jeena marna deen ki sarfarazi ke liye hai.
Deen o Dunya
Iqbal ne baja tor par kaha tha ke judda ho deen siyasat se to reh jati hai chngizi. aur woh deen jo –apne roz awwal se is baat ka dawaydaar hai ke woh aik mukammal ضابطہءحیات hai aur –apne maan-ne walon ke liye duniya وآخرت ki bhalai aur kamyabi ki Naveed ban kar aaya hai. kaisay mumkin tha ke woh un ko infiradi zindagi se mutaliq aadaab وتعلیمات to faraham karta, lekin ijtimai zindagi ke mutaliq Hadayat se mahroom rakhta.
Deen aur Siyasat
yahi wajah thi ke anbia karaam allahum salam apni qomon ki deeni وسیاسی har do qisam ki rahnumaiye ka fareeza sar-anjaam dete rahay. woh aik taraf inhen aadaab bandagi sikhate, ebadaat aur mamlaat ke ehkaam se aagah karte, mkarm ikhlaq aur razail se mutnabba karte. to doosri janib inhen hukmarani aur جہانبانی ke usool vzwabt se mutaliq amli rahnumaiye bhi Ata karte.
دین کے اجتماعی تقاضے
انسان کا مقصد تخلیق اپنے پروردگار کی بندگی بجا لانا ہے۔اس بندگی کے کچھ تقاضے اس کی ذاتی وخاندانی زندگی سے متعلق ہیں اور کچھ تقاضے اجتماعی سماجی واقتصادی زندگی سے متعلق ہیں۔کیونکہ انسان تنہاء زندگی بسر نہیں کرتا وہ سوشل لائف کا عادی ہوتا ہے۔جہاں رشتہ ناطہ اورضرورت ومفاد کے تقاضہ سےدوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات کا ایک جال سابن جاتا ہے۔ان علائق وروابط کو منظم کرنے کے لئے ایک قاعدہ اور قانون کی ضرورت درپیش آتی ہے۔اور ایک جامع اور ہمہ گیردین کے لئےاس ضرورت کو احسن طریق سے پورا کرنے کی صلاحیت رکھنا نہایت ضروری ہے۔
دین وسیاست میں آفاقیت کا تصور
انسان کی اجتماعی زندگی ایک دور میں برادری وقبیلہ کی حدود میں تھی، پھر تمدن کی ترقی کے ساتھ اس کی حدود وسیع ہوتی چلی گئیں ۔اور شہر، مملکت، ریاست، امت اور امامت کی آفاقی سرحدوں تک پھیلتی چلی گئیں۔اور سلسلہء نبوت کے خاتمہ نے اس آفاقیت اور عالمگیر برادری کے رشتہ پر مہر ثبت کر دی۔
اب آخری دین اور آخری پیغمبر کا مخاطب کسی مخصوص قوم وزبان یا خاص علاقہ وآبادی کا رہنے والا شخص نا رہا ، بلکہ تمام انسانیت بلاتفریق نسل ووطن اس کا مخاطب ٹھہری۔اور اسلام کی فطری،ہمہ گیر اورآفاقی دعوت نے چھوٹے چھوٹے جزیروں، صحراوں سے نکل کر تمام براعظموں اور برّوبحر پر اپنے پیام کے پھریرے لہرا دئیے۔
دین کی سیاسی خارجہ پالیسی
اوراس طرح جب ایک بین الاقوامی کمیونٹی وجود میں آگئی تو ضروری تھا کہ اس کے رہنے والے کسی متفقہ بین الاقوامی قانون کو تسلیم کریں ۔جس سے ایک رابطہ بقائے باہمی کااورخیرسگالی کا قائم ہوجائے اوران کی آزادی، خودمختاری اور انفرادیت بھی متاثر نہ ہو۔تو یہاں اسلام نے ایسے آفاقی ملکی وملی، اور بین الاقوامی اصول متعارف کروائے جس کے تحت سب لوگ اپنی اپنی علاقائی ،ثقافتی خصوصیت اور امتیاز کو قائم رکھتے ہوئے اسلام کے آفاقی پیغام کو قبول کر سکتے ہیں۔
دین کا انٹرنیشنل لاء
اسلام کے قانون بین الامم کی اساس میں ایسے یونیورسل،مانے ہوئے اور غیرمتنازعہ نکات و عناصر پائے جاتے ہیں۔جو اسے کل انسانیت کے لئے قابل قبول اور پسندیدہ بناتے ہیں۔مثلا اسلام کے مطابق تمام انسانیت کی اصل ایک ہے۔وہ سب ایک ماں باپ کی اولاد ہے۔ اللہ تعالی نے سلسلہءانسانیت آدم وحوا سے جاری فرمایا۔اور تمام انسانیت کو بمنزلہءاپنے کنبہ کے قرار دیا۔ناصرف یہ بلکہ زمین میں انسان کو اپنا خلیفہ اور جانشین مقرر فرمایا۔جو اس کی بخشی ہوئی صلاحیتوں اور قوتوں کے بل پر زمین کا نظام اس کے پسندیدہ طریقہ کے مطابق بجا لانے پر مامور ہے۔
انسان بحیثیت نوع اس دنیا میں خدا تعالی کا خلیفہ ہے۔اور اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے خدا کے حکم اور مرضی کے مطابق خدا کی تمام دیگر مخلوقات جمادات وحیوانات وغیرہ کا سرپرست اور متولی بنایا گیا ہے، کہ وہ ان کی دیکھ ریکھ ، بھلائی اور منفعت کی حفاظت اور رعایت کا خیال رکھے۔
اس ذمہ داری اور تولیت کو سرانجام دینے کے لئے اہل اسلام نےخدائی ہدایت اور نبوی تعلیم کے مطابق اپنی نمائندگی کے لئے ہمیشہ خود میں سے ایک ممتاز اور معزز شخصیت کا انتخاب کر کےسریرآرائے خلافت کیا۔اسلام کے مطابق امامت اور سیادت کی اہلیت کے لئے بنیادی شرائط میں سے علم وحکمت، تقوی وعدالت ،قوت فیصلہ اور قوت نفاذ ہے۔اور ابن خلدون کے مطابق ان تمام شرائط کا مرجع دیکھا جائے تو وہ کفائت یعنی اہلیت وعصبیت (جمعیت)ہے۔
سیاست وریاست کے متعلق دین کا نظریہ
مسلمانوںمیں سے جمہور کی معتبر رائے کے مطابق خلافت منصوص ہے لیکن خلیفہ منصوص نہیں ہے۔جس کامطلب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق یہ واجب ہےکہ مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہوجو ان کی وحدت اور یکتائی کا استعارہ ہو۔اور اس کی سربراہی میں وہ اپنے دین ودنیا کے امورومعاملات کا انتظام وانصرام کر سکیں۔تاہم اسلام نے ایسی کوئی تعیین اور حدبندی نہیں کی کہ متعین طور پر طے کر دے کہ کون شخص یا شخصیت اس کا مستحق ہے۔
اسلامی روایت میں جس قدر خلفاء منصہء خلافت پر رونق افروز ہوئے ان کی تعیین میں مختلف طریقے اختیار کئے گئے۔اس میں ایک موجود خلیفہ کی جانب سے کسی شخص کی تعیین بھی ہے، جیسے شیخین ابوبکروعمررضی اللہ عنہما کے معاملہ میں ہوا۔ اور ایک یا ایک سے زیادہ اشخاص کی بابت استصواب رائے کاطریقہ بھی رہا ہے۔
Islam ka international law
islam ke qanoon bain الامم ki asaas mein aisay universal, manay hue aur ghirmtnazah nakaat o anasir paye jatay hain. jo usay kal insaaniyat ke liye qabil qubool aur pasandeeda banatay hain. maslan islam ke mutabiq tamam insaaniyat ki asal aik hai. woh sab aik maa baap ki aulaad hai. Allah taala ne سلسلہء insaaniyat aadam وحوا se jari farmaya. aur tamam insaaniyat ko بمنزلہء –apne kunba ke qarar diya. na sirf yeh balkay zameen mein insaan ko apna khalifa aur janasheen muqarrar farmaya. jo is ki bakhsh hui salahiyaton aur quwatoon ke bil par zameen ka nizaam is ke pasandeeda tareeqa ke mutabiq baja laane par mamoor hai.
insaan ba-hasiat noo is duniya mein kkhuda taala ka khalifa hai. aur Ashraf almkhloqat honay ki wajah se kkhuda ke hukum aur marzi ke mutabiq kkhuda ki tamam deegar makhloqaat jamadat وحیوانات waghera ka sarparast aur matwalli banaya gaya hai, ke woh un ki dekh ریکھ, bhalai aur Manfiat ki hifazat aur riayat ka khayaal rakhay .
is zimma daari aur toleet ko sar-anjaam dainay ke liye ahal islam ne khudai hadaayat aur nabwi taleem ke mutabiq apni numaindagi ke liye hamesha khud mein se aik mumtaz aur Muaziz shakhsiyat ka intikhab kar ke سریرآرائے khilafat kya. islam ke mutabiq imamat aur Siyadat ki ahliat ke liye bunyadi sharait mein se ilm وحکمت, taqwa وعدالت, qowat faisla aur qowat nifaz hai. aur Ibn khldon ke mutabiq un tamam sharait ka marja dekha jaye to woh کفائت yani ahliat وعصبیت ( jamiat ) hai.
siyasat وریاست ke mutaliq deen ka nazriya
مسلمانوںمیں se jamhoor ki mooatbar raye ke mutabiq khilafat Mansoos hai lekin khalifa Mansoos nahi hai. jis kamtlb yeh hai ke islam ki taleem ke mutabiq yeh wajib hai ke musalmanoon ka aik khalifa ہوجو un ki wahdat aur yaktai ka isteara ho. aur is ki sarbarahi mein woh –apne deen vdnya ke امورومعاملات ka intizam وانصرام kar saken. taham islam ne aisi koi تعیین aur hadbandi nahi ki ke mutayyan tor par tay kar day ke kon shakhs ya shakhsiyat is ka mustahiq hai.
islami riwayat mein jis qader Khulfa منصہء khilafat par ronaqe Afroz hue un ki تعیین mein mukhtalif tareeqay ikhtiyar kiye gaye. is mein aik mojood khalifa ki janib se kisi shakhs ki تعیین bhi hai, jaisay شیخین ابوبکروعمررضی Allah anhuma ke maamla mein sun-hwa. aur aik ya aik se ziyada ashkhaas ki baabat istiswaab raye katriqh bhi raha hai .
حکمرانی وسیادت کے متعلق دین کا تصور
سیاست وسیادت کی ان اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں قدر مشترک یہ تھی کہ اتفاق رائے سےایسے اہل شخص کا انتخاب عمل میں آجائےجو ذاتی طور پر اپنے علم وفضل اور اہلیت وبرتری کے باعث امت کی وحدت ، بقاء ،ترقی وفلاح وبہبود کا استعارہ بن سکے۔اور اس کے ساتھ وہ ایسی عصبیت وجمعیت رکھتا ہو، جو اس کی قوت وحمایت میں اس کے ساتھ کھڑی ہو، اس کے فیصلہ اور پالیسی کو عملی شکل دینے میں اور نفاذ میں لانے میں اس کے اشارہ ابرو کی منتظر ہو۔اور اس کی حفاظت وحمایت میں بڑے سے بڑے غنیم سے نپٹنے کے لئے پوری وفاداری کے ساتھ ہر دم تیار ہو۔
اس معاملہ میں ابتدائی دور میں عربوں کے ہاں شرف وسیادت کے مراکز خاندان اور قبیلے لوگوں میں معلوم ومتعارف تھے۔اور سیاست وتدبیر کی مالک شخصیات بھی ان کے ہاں جانی پہچانی تھیں۔اور ان کے انتخاب میں مشکل بھی پیش نا آتی تھی۔نا دو رائے ہوتی تھی۔جیساکہ عربوں میں نضر قبیلہ ۔اور اسلام میں قریش کی سیادت مسلمہ تھی ۔اسی لئے خلیفہ کے لئے قریشی ہونے کی شرط بھی ملتی ہے۔تاہم بعد ازاں اورصاحب فضل وکمال اشخاص بھی سیادت کے اہل قرار دئے گئے۔
سیاست کے معاملہ میں دین کی وسعت اور لچک
اسلام چونکہ عالمگیر دین ہے اس لئے وہ بہت سے معاملات میں اصولی تعلیم اور ہدایات دینے پر اکتفاء کرتا ہے۔اور ایسے معاملات میں جو عقل وفطرت یا منطق وقیاس سے جانے جا سکتے ہوں وہ تفصیلی ہدایات دینے سے گریز کرتا ہے۔اور اس میں اس کی حکمت یہی ہے کہ ہر زمان ومکاں کے لوگ اپنی اپنی روایات اور سہولت وانتظام کے مطابق کوئی بھی ایسا قابل عمل نظم تشکیل دے لیں جس کے مطابق وہ منشاء خداوندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان معاملات سے بہتر طور پر عہدہ برآ ہو سکیں۔
ان معاملات میں سے ایک خلیفہ یا حاکم کا انتخاب بھی ہے ۔اسلام نے اس کے لئے تحدید سے گریز کرتے ہوئے اسلامی ریاست کو ایک نصب العینی اور آئینی ریاست قرار دیا۔اور ریاست کے سربراہ کی صفات بیان فرمائی ہیں کہ وہ علم وتقوی، بصیرت وجہاندیدگی اور قوت فیصلہ ونفاذ میں برتر ہو۔مسلمانوں نے اپنی تاریخ میں ایسے شخص کی نامزدگی میں مختلف طریقے اپنائے جن میں سے کچھ بہت مثالی واقع ہوئے جیسے خلفائے راشدین اور کچھ ان سے کم تر تھے جیساکہ بعد کہ ملوک وبادشاہان ۔
مسلمانوں کے سیاسی ومذہبی راہنماء
مثالی نبوی دور اورخیرالقرون سے دوری کی وجہ سے بعد کے زمانوں میں جن شخصیات نے امامت کی ذمہ داری سنبھالی ان میں پہلوں کی نسبت کافی کمی اور تنزل رہا جو ایک لحاظ سےفطری عمل بھی تھا۔خیرالقرون تو وہ سنہری دور تھا جس میں نبوت کا فیضان ہر سو چمک رہا تھا اور خورشید نبوت کی کرنوں نے ایسی پود کی نشونما کی تھی جو رشدوہدایت اورخیر وصلاح میں اپنی مثال آپ تھے۔بعد کے امراء وسلاطین کو یہ سعادت نصیب نا ہو سکی ۔تاہم اپنے اپنے احوال وظروف کے مطابق ان میں بھی بہتر وکہتر پائے جاتے رہے۔
خلافت سے بادشاہت
ماہرین کے مطابق پہلے چار خلفاء کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔یہ وہ وقت تھا جب اسلام اپنے بام عروج کو چھو رہا تھا۔روم وفارس کی نعمتیں اور غنیمتیں بارش کی طرح اسلامی سلطنت پر برس رہی تھیں۔مسلمانوں کا تہذیب وتمدن فقرواحتیاج سے آسودگی اور خوشحالی کی جانب ترقی کی کئی منازل طے کرگیا تھا ۔اب خلافت کے ایوانوں میں شاہانہ طور طریقے اورمراسم راہ پا چکے تھے۔اور یہ کوئی ایسی بری بات بھی نا تھی ۔اسلام جو قیادت عالم کا دعویدار ہے اسے اتنا خودکفیل اور خوشحال ہونا ہی چاہئے تھاکہ دوسروں کا سہارا تب ہی بن پاتا۔دولت اورامارت تب مذموم ہوتی ہے جب آخرت کی قیمت پر اور دنیا کی ترجیح کے ساتھ ہو۔
حضرت معاویہ کا پرشکوہ دور
یہ وہ وقت تھا جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر فہیم وبصیر صحابی کی قیادت میں بنو امیہ کی شان وشوکت کاطوطی بول رہا تھا۔اور حکومت کے لئے انہیں مضبوط قوت اور جمعیت حاصل تھی۔تاہم اس وقت بھی خلافت کا ایک امیدوار طبقہ اہل بیت رسول کا بھی تھا جو مختلف اسباب کی بناء پر خلافت کا امیدوار تھا۔لیکن حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبرداری کی وجہ سے اور معاہدہ کے ہاتھوں وہ خاموش تھے۔البتہ درون دل وہ خود کو خلافت کا زیادہ حق دار سمجھتے تھے۔
یزید کا پرشکایت دور
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد جب اپنے بیٹے یزید کوخلافت کی ذمہ داری سونپی اور اس کے لئے اہل حل وعقد سے بیعت لینے کا ارادہ کیا تو بہت سے سیاسی مقتدر حلقوں میں بےچینی اور تردد کے اثرات پیداہوئے۔اور اس کی وجہ خلافت میں موروثیت کے شائبہ کے علاوہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید کے شخصی کردار اور رتبہ وکمال میں شدید تفاوت بھی تھا۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ علم وفضل، تقوی اور دیانت ، سیاست اور فراست میں جس اعلی مقام پر فائز تھے وہ یزید کو حاصل نا تھا۔
یزیدکی حکمرانی کے متعلق مسلمانوں کا ردعمل
بھلے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے تئیں خلافت کے لئے یزید کی نامزدگی کو دستیاب حالات میں اور امت کے وسیع ترمفاد میں بہتر سمجھتے تھے۔اور اپنی جانکاری کے مطابق اس کے عمل وکردار سے مطمئن تھے۔لیکن جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اصحاب فضل وکمال شخصیات وتابعین کی کثیر تعداد کی موجودگی میں یزید کو ترجیح دئے جانے پر مقتدر حلقے چیں بجبیں تھے۔بالخصوص اہل بیت رسولﷺ جو پہلے سے خلافت کے امیدوار تھے اور ایک معاہدے کی وجہ سے حضرت معاویہ کے حق میں خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔وہ یزید کو خلیفہ بنائے جانے پر کسی صورت رضامند نا ہوئے۔اور شائد وہ سمجھتے ہوں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کےبعد اب ان کے ساتھ کیا گیا معاہدہ بھی ختم ہو چکا ہے۔
جمہور صحابہ وتابعین کا موقف
تاہم جمہور صحابہ وتابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بالآخر سیاسی اصولوں، شرعی مصالح اور امت کے اجتماعی مفاد کی بنیاد پر بنو امیہ کے اقتدار کو چیلنج نا کرنے کا دوٹوک فیصلہ کیا اور یزید کی بیعت کر لی۔شائد ان کی رائے میں بھلے یزید تقوی اور کمال کے بلند مقام پر فائز نا تھا، لیکن اسے وسیع پیمانے پر عملی طور پر جوقوت وشوکت اورحمایت وپذیرائی حاصل ہوچکی تھی ۔اسے چیلنج کرنا سیاسی انتشار اورخانہ جنگی کا باعث ہو سکتا تھا۔اور اس اقدا م سے اغیار کے سامنے امت کے وقار اور مفاد کو بھی ٹھیس پہنچنے کا خطرہ تھا ۔اس وجہ سے انہوں نےاپنے تحفظات سے صرف نظر کرتے ہوئے خلیفہ کے معیار میں مثالیت سے اتر کر کم معیار کو گورا کرنا برداشت کر لیا۔
حضرت حسین کا رد عمل
لیکن اس کے برعکس خانوادہء رسول اور خلیفہء چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کےخاندان کے چشم وچراغ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنی پاکبازفطرت، نیک طینت، دینی حمیت اور سیاسی بصیرت کے باعث اس غیرمعیاری انتخاب پر مطمئن نہ ہوئے ۔اور یزید کی امامت کو امت کے مفاد کےحق میں بہتر نا سمجھتے ہوئےاس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ان کی رائے میں ابھی یزید کی خلافت قائم ہی نا ہوئی تھی اس لئے اس کے خلاف نکلنا بغاوت بھی نہیں تھا۔بغاوت تو تب ماناجاتا جب اس کی خلافت استوار ہو چکی ہوتی،اور ابھی تو بیعت ہی تمام نہ ہوئی تھی۔اور مزید برآں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ والوں کی جانب سے ساتھ دینے کے وعدے اور تسلیاں بھی موصول ہو رہی تھیں۔
شہادت حسین
لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ کوفہ والوں کی حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے وفاداریاں صرف دل سے تھیں ان کی تلواریں حضرت حسین کے ساتھ نہ نکل سکیں۔اور جب تک حضرت حسین کو اس کا ادراک ہوا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔اور یزیدکے ہرکارے ان کے سر پر پہنچ چکے تھے۔اس موقعہ پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ایک سیاسی مبصر اورحکیم شخص کی طرح اپنے موقف میں نرمی اختیار کی، اور اپنے حریفوں کے سامنے چند تجاویز رکھیں ، جنہیں انہوں نے مسترد کر دیا۔وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی حیثیت اور شخصیت میں ریاست کی رٹ کے لئےبہت بڑا چیلنج محسوس کرتے تھے۔اس لئے وہ جبری بیعت کے علاوہ کسی دوسرے آپشن کو سننے پر تیار نہ تھے۔اور جب حضرت حسین کی غیرت،حمیت اور عزت نفس اس توہین اور ذلت آمیزی کے سامنےسپر ڈالنے پر رضامند نا ہوئی تو انہوں نے نہایت بےشرمی،بدنیتی سنگدلی اوربربریت سے نواسہءرسول ﷺکوان کے خاندان سمیت تہ تیغ کر ڈالا۔
بنوامیہ کی غیر مدبرانہ سیاسی پالیسی اور نتائج
یزید اور اس کے مامورین کے اس احمقانہ اقدام کے دوررس نتائج اور اثرات پیدا ہوئے۔انہوں نے تو اپنے تئیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے اپنی سیادت وامارت کو محفوظ بنا لیا تھالیکن وہ یہ بھو ل گئے کہ شہید ہونے والا کوئی معمولی شخص نا تھا۔انہوں نے اس کی شخصی وجاہت، خاندانی نسبت اور لوگوں کی ان سے جذباتی مناسبت تمام امور کے متعلق غلط اندازہ لگایا۔ بطور حکمران یہ ان کی نفسیاتی کمزوری اور احساس کم مائیگی بھی تھی ۔کہ انہوں نے اپنے بڑے حریف کو عدم تحفظ کا احساس دلا کر غیر معمولی اقدام کرنے پر ایک طرح سے مجبور کر دیا۔اس سانحہ کےبعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ ان کی اس غیرمدبرانہ اور سخت گیر ظالمانہ پالیسی کے باعث بنو امیہ کے خلفاء بھی کبھی چین سے نا بیٹھ سکے۔
Jamhoor sahaba وتابعین ka muaqqaf
taham jamhoor sahaba وتابعین rizwan Allah allahum اجمعین ne bil akhir siyasi usoolon, sharai مصالح aur ummat ke ijtimai mafaad ki bunyaad par bano Umia ke Iqtidaar ko challenge na karne ka dotok faisla kya aur Yazid ki baet kar li. shaed un ki raye mein bhallay Yazid taqwa aur kamaal ke buland maqam par Faiz na tha, lekin usay wasee pemanay par amli tor par جوقوت وشوکت اورحمایت وپذیرائی haasil hochuki thi. usay challenge karna siyasi inteshaar اورخانہ jungi ka baais ho sakta tha. aur is aqda meem se aghyar ke samnay ummat ke Waqar aur mafaad ko bhi thais pounchanay ka khatrah tha. is wajah se unhon ne –apne tahaffuzaat se sirf nazar karte hue khalifa ke miyaar mein misaliat se utar kar kam miyaar ko gora karna bardasht kar liya.
Hazrat Hussain ka radd e amal
lekin is ke bar aks خانوادہء rasool aur خلیفہء chaharum hazrat Ali razi Allah anho ke khandan ke chasham وچراغ hazrat Hussain razi Allah anho apni پاکبازفطرت, naik Tanat , deeni Hamiyat aur siyasi baseerat ke baais is ghirmayari intikhab par mutmaen nah hue. aur Yazid ki imamat ko ummat ke mafaad ke haq mein behtar na samajte hue is ke khilaaf uth kharray hue. un ki raye mein abhi Yazid ki khilafat qaim hi na hui thi is liye is ke khilaaf niklana baghaawat bhi nahi tha. baghaawat to tab ماناجاتا jab is ki khilafat ustuwar ho chuki hoti, aur abhi to baet hi tamam nah hui thi. aur mazeed bar-aan hazrat Hussain razi Allah anho ko koofa walon ki janib se sath dainay ke waday aur tasalliyan bhi masool ho rahi theen.
Shahadat e Hussain
lekin baad ke waqeat ne saabit kar diya ke koofa walon ki hazrat Hussain razi Allah anho se wafadaariyan sirf dil se theen un ki chonkey hazrat Hussain ke sath nah nikal saken. aur jab tak hazrat Hussain ko is ka idraak sun-hwa tab tak bohat der ho chuki thi. aur یزیدکے hrkare un ke sir par pahonch chuke thay. is moqa par hazrat Hussain razi Allah anho ne aik siyasi Mubassir اورحکیم shakhs ki terhan –apne muaqqaf mein narmi ikhtiyar ki, aur –apne hareefon ke samnay chand tajaweez rakhen, jinhein unhon ne mustard kar diya. woh hazrat Hussain razi Allah anho ki hesiyat aur shakhsiyat mein riyasat ki ratt ke liye bohat bara challenge mehsoos karte thay. is liye woh jabri baet ke ilawa kisi dosray option ko suneney par tayyar nah thay. aur jab hazrat Hussain ki ghairat, Hamiyat aur izzat e nafs is tauheen aur zillat amaizi ke samnay super daalnay par razamand na hui to unhon ne nihayat be sharmi, badniyati sangdili avrbrbrit se نواسہءرسول ﷺکوان ke khandan samait teh tegh kar dala.
خلاصہءکلام
خلاصہ یہ کہ دین اورسیاست جدا جدا نہیں۔سیاست کی سیج دینی نظریہ اور تقاضہ سے ہی سجتی ہے، بلکہ اس کا قیام اور استحکام بھی اسی نظریہ اور نصب العین کی آبیاری سے ہوتا ہےکہ اقتدار اعلی خدا کا ہےاور انسان اس کے نائب اور خلیفہ کی حیثیت سے حکمرانی کرنے کا جواز پاتا ہے۔واقعہءکربلا نے سیاسی قضیہ ہونے کے باوجود اس کا ثبوت فراہم کیا۔
تاہم دین نے سیاست کے معاملات میں زیادہ دخیل ہونا پسند نہیں کیا ۔صرف اصولی راہنمائی فراہم کر کے عقل انسانی، اجتماعی شعور اورتمدنی حرکیات کو موقعہ دیا کہ اپنی ضرورت اور سہولت کے مطابق جیسا چاہے نظام قائم کریں، اور جیسے چاہیں اپنے حاکم کا انتخاب عمل میں لائیں۔دین کو صرف یہ مطلوب ہے کہ حاکم اورنظام کا قیام ایسے متفقہ اور غیرمتنازعہ طریقہ سے ہو جس میں تمام لوگوں کی نمائندگی احسن اور پرامن طریقہ سے اس کے اہل کو سپرد کر دی جائے۔
دین نے امور سیاست میں اجمالی تعلیم پر اکتفاء کرتے ہوئے غیرضروری تعیین سے اسی لئے گریزکیا کہ اس کی نظر میں سیاست ایسا میدان ہے جہاں حدبندی سے کہیں زیادہ اہمیت رخصت ، وسعت اور لچک کو ہے۔یہاں مصلحت اندیشی، جہاندیدگی، وسعت ظرفی کی اقدار کی خصوصی اہمیت ہے، اور غیر ضروری یک رخی، سخت گیری اور استبداد کی قطعا گنجائش نہیں۔اس میں جہاں قانون وآئین اور اسلام کی بالادستی کی خاطر جراتمندانہ قدم اٹھانا ہوتا ہے تو کبھی حالات کی ناسازی اور غیر ہمواری کے باعث اپنے موقف سے رجوع کرنا اورنظرثانی کرنا بھی دانشمندانہ اقدام ہوتا ہے۔کیونکہ حکومت وامارت ایک مسلمان کے نکتہءنظر سے ایک فریضہ کی حیثیت رکھتا ہے، مقصد حیات کی نہیں۔اگر کسی وجہ سے حکومت وسیادت سے محرومی بھی رہی تو اس سے مسلمان کے مقصد حیات ، آخرت کی سرخروئی اور رب کی رضاء کے حصول میں کچھ کمی واقع نہیں ہوتی، بلکہ خدا کی نظر میں اور زیادہ مقبولیت مقدر ہوتی ہے۔
Khulasa e Kalam
khulasa yeh ke deen اورسیاست judda judda nahi. siyasat ki sej deeni nazriya aur taqaza se hi sajti hai, balkay is ka qiyam aur istehkaam bhi isi nazriya aur nasb alayn ki abyari se hota hai ke Iqtidaar aala kkhuda ka hai aur insaan is ke naib aur khalifa ki hesiyat se hukmarani karne ka juwaz paata hai. واقعہءکربلا ne siyasi qazia honay ke bawajood is ka saboot faraham kya.
taham deen ne siyasat ke mamlaat mein ziyada Dakheel hona pasand nahi kya. sirf usooli rahnumaiye faraham kar ke aqal insani, ijtimai shaoor اورتمدنی harkiyaat ko moqa diya ke apni zaroorat aur sahoolat ke mutabiq jaisa chahay nizaam qaim karen, aur jaisay chahain –apne haakim ka intikhab amal mein layein. deen ko sirf yeh matloob hai ke haakim اورنظام ka qiyam aisay mutafiqa aur ghirmtnazah tareeqa se ho jis mein tamam logon ki numaindagi Ahsen aur pur aman tareeqa se is ke ahal ko supurd kar di jaye.
deen ne umoor siyasat mein ajmali taleem aur ghair zaruri تعیین se isi liye bhi grizkya ke is ki nazar mein siyasat aisa maidan hai jahan hadbandi se kahin ziyada ahem rukhsat, lachak aur wusat ko hai. yahan Maslehat andeshi, جہاندیدگی, wusat zarfi ki eqdaar ki khusoosi ahmiyat hai. aur ghair zaroori yak rukhi, sakht Gary aur istibdaad ki qattan gunjaish nahi. is mein jahan qanoon وآئین aur islam ki baladasti ki khatir jratmndanh qadam uthana hota hai to kabhi halaat ki na-saazi aur ghair hamwari ke baais –apne muaqqaf se rujoo karna اورنظرثانی karna bhi danish mandana iqdaam hota hai. kyunkay hukoomat وامارت aik musalman ke نکتہءنظر se aik fareeza ki hesiyat rakhta hai, maqsad hayaat ki nahi. agar kisi wajah se hukoomat وسیادت se mehroomi bhi rahi to is se musalman ke maqsad hayaat, akhirat ki srkhroyi aur rab ki رضاء ke husool mein kuch kami waqay nahi hoti, balkay kkhuda ki nazar mein aur ziyada maqboliat muqaddar hoti hai.
Add Comment